آمد و رفت

July 21st, 2013

آمد و رفت
( نصر ملک ۔ ڈنمارک ) ۔
کوئٹہ سے حسن کی تبدیلی جب کراچی میں ہوئی تو اُن دونوں میاں بیوی کی خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں تھا۔
’’ چلو یہاں کی قتل و غارت گری سے تو بچ جائیں گے۔‘‘ حسن کو ہر روز کے بم دھماکوں، لوگوں کے قتل ہونے اور بوریوں میں بند لاشوں کے برآمد ہونے پر ہر وقت تشویش رہتی تھی ۔اور اُن کے گھروالوں کو تو ایک دو بار دھمکیاں بھی مل چکی تھیں کہ وہ اپنے گھر پر لگے ہوئے ’’ علم ِ عباس ‘‘ کو اتار دیں ورنہ جو کچھ بھی ہوگا اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے ۔ اور فاطمہ بھی یہی سوچتی رہتی تھی کہ ہونا ہو ایک دن وہ بھی اس غارت گری کا نشانہ نہ بن جائیں ۔
حسن کو کراچی میں ایک بین الاقوامی کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی اور اب وہ اپنی بیوی اور ایک سال کی بچی کے ساتھ کراچی روانہ ہو رہے تھے ۔ امامیہ کالونی کے کئی لوگ انہیں خدا حافظ کہنے انہیں گھر پر آئے تھے اور حسن کے والدین نے آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ اور دعاؤں سے رخصت کیا ۔
کراچی آنے سے پہلے ہی حسن نے اپنے ایک جاننے والے کے ذریعے جعفریہ کالونی میں اپنے لیے ایک مکان کرائے پر لے لیا تھا ۔ اس لیے انہیں یہاں آکر مکان وغیرہ کے لیے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔
حسن کا یہ معمول تھا کہ صبح کام پر چلا جاتا اور دفتر سے چھٹی ہوتے ہی رستے میں گھر کے لیے سامان خریدتا اور پھر سیدھا گھر پہنچ کر بیوی اور بچی کے ساتھ ہنسی خوشی میں شامل ہو جاتا ۔ دن گزرتے جا رہے تھے اور فاطمہ بھی محلے میں خواتین کی ایک رفاعی انجمن میں شامل ہو کر نادار بچیوں اور بیوہ عورتوں کی مدد کے لیے کام کرنے لگی تھی ۔ وہ ننھی زینب کو ساتھ لے جاتی اور اس طرح اس کی کئی سہیلیاں بھی بن گئیں تھیں ۔
انہیں کراچی آئے تین ماہ ہو چکے تھے ۔ اور حسن ہر دوسرے تیسرے روز کوئٹہ میں والدین کو فون کرکے انہیں اپنے حالات سے آگاہ کردیتا تھا اور وہاں گھر والوں کی خیر خیریت پوچھ لیتا تھا ۔ وہاں ابھی تک تو سب خیریت سے تھے اور یہاں کراچی میں وہ بھی اپنے کنبے کے ساتھ بہت خوش تھا ۔ لیکن اچانک ایک دن ایسا ہوا جو انہیں خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔
آج اپنے کام کے بعد حسن جب گھر پہنچا تو وہ بیحد نڈھال دکھائی دے رہا تھا ۔ اور وہ بازار سے وہ سودا بھی نہیں لایا تھا جس کے لیے فاطمہ نے اُسے دفتر جاتے ہوئے کہاتھا ۔ حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا ۔ اس نے ننھی زینب کو بھی پیار نہیں کیا تھا وہ اُس کی ٹانگوں سے لپٹی ’’ بابا، بابا ‘‘ کی رٹ لگا رہی تھی ۔
’’ کیا بات ہے ؟ آپ چپ سے کیوں ہیں ؟‘‘ فاطمہ نے پوچھا۔
حسن جواب دینے کی بجائے فاظمہ کے چہرے پر نظریں جمائے چپ چاپ کھڑا تھا۔ اس کے اندر ایک ایسا تلاطم تھا کہ جس کے باہر نکلنے کا کوئی رستہ ہی نہیں تھا۔
’’آپ نے جواب نہیں دیا ‘‘۔ فاطمہ نے پھر اسے متوجہ کیا۔ ’’ کیا دفتر میں کچھ ہوا ہے؟‘‘
’’نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں، دفتر والے تو میرا گریڈ بڑھا دینے کی بات کر رہے تھے ۔‘‘ حسن بولا ۔ اس کی آواز یوں سنائی دے رہی تھی جیسے وہ کسی گہرے کنویں سے بول رہا ہو ۔
’’یہ تو خوشی کی بات ہے ۔ مولا کا کرم ہمارے شامل ہے، آپ کیوں اداس اداس سے لگتے ہیں؟‘‘
’’ میں ، میں اداس تو نہیں ہوں ۔۔۔۔ بس میں ۔۔۔۔ ‘‘ حسن اس سے آگے کچھ بھی نہ بول سکا اور اس کے ہونٹ کانپنے لگے اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ اُس نے اپنے کوٹ کی جیب سے کاغذ کا پرزہ نکال کر فاطمہ کی طرف بڑھا دیا۔ ’’ پچھلے تین دنوں سے کوئی میری میز پر اسی طرح کا رقعہ رکھ جاتا ہے ۔‘‘
فاطمہ نے وہ رقعہ پڑھنا شروع کیا، اس کے ہاتھ لرز رہے تھے ۔
’’ حرامی کافر، تم کوئٹہ سے فرار ہوکر ادھر آگیا تو کیا سمجھتا ہے تو بچ جائے گا ۔ ہم جانتے ہیں تو کہاں رہتا ہے اور تمھاری بیوی کن عورتوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔ تین دن کے اندر اندر نوکری چھوڑ کر وہیں چلا جا جدھر سے آیا ہے ورنہ تیری اور تیری بیوی اور بچی کی لاشیں ہی ادھر جائیں گی۔ وہ بھی اگر شناخت کے قابل رہیں تو ۔ تیرے پاس بس اب تین دن باقی ہیں ۔ یہ آخری وارننگ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
فاطمہ اس سے آگے کچھ نہیں پڑھ سکی تھی ۔ رقعہ اس کے ہاتھ سے نیچے گر پڑا تھا اور وہ حسن سے چمٹ کر رو رہی تھی ۔ ننھی زینب کی سمجھ میں کچھ بھی تو نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ وہ ان کی ٹانگوں سے لپٹی ہوئی تھی ۔
’’ تو آپ کیا کرنے والے ہیں؟‘‘ فاطمہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے حسن سے پوچھا ۔
’’ میں استعفیٰ دے آیا ہوں ۔ مولا مسب الاسباب ہے۔ ہم کل شام کی گاڑی سے واپس جا رہے ہیں‘‘۔ حسن کے لہجے میں اعتماد تھا اور وہ سنبھل چکا تھا ۔ اس نے ننھی زینب کو اٹھا کر سینے سے چمٹا لیا تھا، ’’ میری بیٹی کل دادا دادی کے پاس جائے گی ‘‘ وہ اسے بار بار چومتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’ کل شام ہم دادا دادی کے پاس جائیں گے ۔‘‘
آج شام ان کے گھر میں چولھا جلا اور نہ کھانا پکا ۔
فاطمہ اور حسن رات بھر سامان باندھنے میں لگے رہے ۔
اگلے دن وہ ایک ٹیکسی میں سوار ریلوے اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے ۔
( نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک ) ۔

سفرِ حیات

July 10th, 2013

سفرِ حیات
________
ڈوبتے سورج کی زرد رنگت
شفق پر آگ رنگ کی لہر
دشت خاموش کے کنارے سے ملتا
جامنی رنگ پانی کے سمندر کا ساحل
اور اس پر اُترا
صحرائی خانہ بدوشوں کا قافلہ
صحرا نوردی کے عذاب کا سب بوجھ اتار کر
رات کی تیرگی کے میدان میں سو جائے گا
اور پھر اگلی صبح اک نئے سفر پر روانہ ہو جائے گا
ڈوبتے سورج کی زرد رنگت
شفق پر آگ رنگ
دشت خاموش
جامنی رنگ پانی کے سمندر کا ساحل
سبھی کچھ پیچھے رہ جائے گا
اونٹوں کی گردنوں میں بندھی گھنٹیاں
صحرا میں بجنے لگیں گی اور کوئی دوشیزہ
صحرائی گیت گانے لگے گی
زمیں و آسمان کے درمیان
محبت کا نور پھیل جائے گا
صحرائی خانہ بدوشوں کا سفر
جاری رہے گا تا بہ شام اور
پھر اگلی صبح، یہ سلسلہ
جاری رہے گا تا ابد !
نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ) ۔ (

کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو

June 29th, 2013

کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو
________________________
امشب ہوا میں تازہ کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو پھیلی ہے
پیڑوں کی شاخوں پر سیب لٹک رہے ہیں
پرندے اپنے گھونسلوں میں واپس جا چکے ہیں
موسم گرما، توقعات و یادداشتوں کے درمیاں،
اِک راہ گم کردہ احساس ۔
موسم گرما تو پتنگوں کے لیے ہے
اُن کی سچائی کے لمحے اندھیرے کے بعد آشکار ہوتے ہیں
تب وہ اڑتے ہوئے ہماری کھڑکی کے شیشے سے چمٹ جاتے ہیں
اور انتظار کرتے ہیں کہ کب، موقع پائیں اور
ہماری شمع کی کرنیں کاٹ کے رکھ دیں
اس سمے وہ اپنی یادداشتیں بھول جاتے ہیں کہ
اُن کے پشتوں کے ساتھ کیا ہوا تھا، وہ تو بس
توقعات لیے، انجام سے بے خبر، دیوانہ وار
کھڑکی کے شیشے سے سر ٹکراتے رہتے ہیں،
شمع جلتی رہتی ہے، پگلتی رہتی ہے اور پھر
آنسوؤں میں ڈوب جاتی ہے ،
کھڑکی کے باہر پتنگوں کی لاشیں پڑی رہ جاتی ہیں،
کل صبح انہیں مکھیاں کھا جائیں گی
سورج، شمع کو نگل چکا ہوگا
کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو اُڑ چکی ہوگی ۔
( نصر ملک ۔ کوپن ہیگن) ۔

ہمارا آج کا دن کیسا ہو؟

June 26th, 2013

کل جو گذر گیا، اس کا غم کیا
کل تو کل تھا، سو گذر گیا،
کل کی غلطی، یا برائی
اُس پر اب افسوس کیسا
ہمارا کل تو اب ہمیشہ کے لیے
ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے
ہم اسے اب کبھی واپس نہیں لا سکتے
ہم اپنے کل کے لکھے حرفوں کو نہیں مٹا سکتے
اب ہاتھ ملنے سے کیا فائدہ، ہاں البتہ
ہمیں اپنے آنے والے کل سے محتاظ رہنا چاہیئے
یہ ہمارے ’’آج‘‘ کو نگل نہ لے
ہمیں ’’ آج‘‘ محتاط رہنا ہوگا،
ہمیں کل کی اپنی غلطیوں کو دھرانا نہیں چاہیئے
ورنہ ہم آج ہی نہیں کل بھی پچھتائیں گے
کل جو آنے والا ہے
آئیں ہم اپنے ’’ آج ‘‘ کو پُر مسرت بنائیں
آنے والے اور گذرے ہوئے کل کی فکر چھوڑیں
اپنے ’’ آج ‘‘ کا دامن خوشیوں سے بھر لیں
آنے والے اور گذرے ہوئے کل کا آزالہ
خود بخود ہو جائے گا ۔
( نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ) ۔

’’ جمعہ کا دن ‘‘ ، ’’ عدم تحمل و نارواداری ‘‘ ۔

June 6th, 2012

’’ جمعہ کا دن ‘‘ ، ’’ عدم تحمل و نارواداری ‘‘ ۔
از : نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔
آج جمعہ تھا اور مجھے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک مسجد کے قریب واقع ایک کیفے ٹیریا میں پہنچنا تھا ۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ جمعہ کی نماز کے بعد بیشتر مسلمان اس کیفے میں چائے کافی وغیرہ پینے اور آپس میں تبادلہ خیال کرنے کے لیے آتے ہیں ۔ میرے وہاں جانے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ مسلمان یہاں ڈنمارک میں اپنے بارے میں کیا محسوس کرتے اور یہاں کے سماج کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ وہ کہاں تک ڈینش اقدار اپنا چکے ہیں اور کہاں تک اپنے دینی تشخص کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ معلومات مجھے اپنے ایک مضمون کی تیاری کے لیے درکار تھیں اور میں نے اپنے ایڈیٹر سے وعدہ کر رکھا تھا کہ سوموار تک اسے یہ مضمون، اُس کی میز پر مل جائے گا ۔
دراصل ایک جرمن سیاستدان کی پیروی کرتے ہوئے ڈنمارک کی قومیت پرست، ڈینش پیپلز پارٹی کے ایک سیاستدان نے بھی پچھلے دنوں اپنے ایک بیان میں ’’ دین اسلام ‘‘ کو ’’نازی ازم ‘‘ کے ہو بہو برابر گردانتے ہوئے ، مسلمانوں کو ڈنمارک کے لیے خطرہ قرار دیا تھا اور اس کے اس بیان پر ملکی میڈیا میں ہی نہیں عوام میں بھی بحث مباحثے جاری تھے اور سیاستدان بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں پیچھے نہیں تھے ۔ اکثریت کی رائے میں اس کے بیان میں وزن تھا ۔ اور یہی وجہ تھی کہ مجھے بھی غیر ملکیوں کے بارے میں ایک کڑاکے دار مضمون لکھنے کو کہا گیا تھا ۔ ’’ ان مسلمانوں کا ذرا کچا چھٹا سامنے لاؤ!‘‘ میرے ایڈیٹر نے مجھے تاکید کی تھی ۔
میں کیفے ٹیڑیا میں پہنچا تو وہاں کچھ لوگ بیٹھے چائے اور دیگر مشروبات سے لطب اندوز ہورہے تھے ۔ وہ سروں پر ٹوپیاں پہنے، گلے میں مفلر نما چارخانےدار رومال لٹکائے، ہاتھوں میں تسبحیاں گھماتے ، آ پس میں بڑے خوش انداز میں گفتگو کر رہے تھے ۔ چہروں سے وہ الگ الگ ملکوں سے آئے ہوئے لگتے تھے ۔ اور شاید اسی لیے وہ ڈینش زبان میں باتیں کر رہے تھے ۔ اگرچہ اُن میں سے کئی ایک کی ڈینش اتنی اچھی نہیں تھی لیکن یوں لگتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ وہ آپس میں مختلف ہوتے ہوئے بھی ’’ ایک ‘‘ دکھائی دے رہے تھے ۔ ان کا موضوع بھی ڈینش سیاستدان کا وہی بیان تھا جس میں اُس نے، سلام کو نازی ازم کے برابر قراد دیا تھا ۔ میں بھی ایک کرسی لے کر ایک میز پر اُن کے قریب ہی بیٹھ گیا ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ اُن سے براہ راست کوئی بات نہیں کروں گا بلکہ سنوں گا کہ وہ ایک دوسرے سے کیا باتیں کرتے ہیں اور اگر ضرورت ہوئی تو بعد میں اُن میں سے کسی ایک سے بات کر لوں گا ۔
میں نے اپنے لیے کافی منگوائی اور بظاہر اُن کی باتوں سے لاتعلق، اسے پینے لگا اور ساتھ ہی وہاں پڑا ہواایک اخبار لے کر اس کی ورق گردانی کرنے لگا ۔
’’ میرا بس چلے تو میں ڈنمارک میں رہنے والے مسلمانوں میں سے چار ہزار مسلمانوں کو ہر زور چار ہزار چینیوں کے ساتھ بدل لوں اور کچھ ہی ہفتوں میں چار لاکھ مسلمانوں کو چار لاکھ چینیوں سے بدل کر ان سے نجات پا لوں ‘‘ میری نظریں ڈینش پیپلز پارٹی کے ایک سیاستدان کے بیان پر رک گئیں ۔ ’’ یہ مسلمان ہمارے لیے ، ہمارے ملک اور ہمارے سماجی رفاعی نظام کے لیے مسئلہ ہی نہیں ایک بڑا خطرہ بھی ہیں ۔ یہ ڈینش سماج میں انٹگریٹ ہونا نہیں چاہتے بلکہ ہمیں مسلمان کرنا اور یہاں اپنی اقدار لانا چاہتے ہیں‘‘ ۔ میں اس سے آگے کچھ نہ پڑھ سکا ۔ کافی کی پیالی میرے ہاتھ سے چھلکنے ہی والی تھی ۔
’’ بیس تیس سال پہلے، کیا کوئی ایسی باتیں ہمارے خلاف کرتا تھا ؟ کبھی نہیں!، آج ہر کوئی سیاستدان، اخبارات، نام نہاد دانشور اور وہ نئے نازی اور اُن کی ماں، ڈینش پیپلز پارٹی کی پیا کھیآ سگورڈ نے تو حد ہی کر دی ہے، ہم مسلمانوں پر کیچڑ اچھالنے کی ۔‘‘ مجھے اپنے پیچھے سے ایک آواز آئی ۔
’’اب دیکھونا، ہم یہاں کئی کئی سال سے رہ رہے ہیں لیکن یہ ڈینش، یہ ہمیں آج بھی ’’ اجنبی ‘‘ ہی کہہ کر پکارتے ہیں ۔ میرے پاس ڈینش پاسپورٹ ہے ، پھر بھی یہاں وہاں، جہاں کہیں جاتا ہوں مجھ سے پہلا سوال یہی کیا جاتا ہے ’’ تم کس ملک سے آئے ہوئے ہو، کیا تم مسلمان ہو؟‘‘ اب بتاؤ کیا یہ پوچھنا ضروری ہے؟ ‘‘ میں تو یہی جواب دیتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں ، ڈنمارک میں رہتا ہوں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا، کام کرتا اور ٹیکس ادا کرتا ہوں ، بالکل جیسے دوسرے شہری کرتے ہیں ۔‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا ، ایک باریش ترک بڑے اعتماد سے بول رہا تھا ۔ وہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح کے دانے پھیر رہا تھا ۔
’’ تم ٹھیک کہتے ہو، میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں ۔‘‘ ایک دوسرے نے قہوے کی چسکی لیتے ہوئے لقمہ دیا ۔
’’ان ڈینشوں کو ان ہی کی زبان اور ان ہی کے لہجے میں جواب دینا چاہیئے ۔‘‘ ایک جو قدرے جوان تھا اور جوش میں دکھائی دے رہا تھا ، بولا ۔
کچھ تو مسلمانوں کے خلاف سیاستدانوں کے بیانات اور میڈیا کی جانب سے حاشیہ آرائیاں اور ڈینشوں کے ہاں غیر ملکیوں اور خاص کر مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے مفروضات نے پچھلے کئی ایک سال سے ماحول میں نسلی تعصب کی کثافت میں اضافہ کر رکھا تھا اور پھر پچھلے دنوں ملک کے سب سے بڑے اخبار کی جانب سے نبی اسلام ، مسلمانوں کے پیغمبر کے خاکے شائع کیے جانے کے بعد تو گویا مسلمانوں کے جذبات کو بڑھکانے اور انہیں سیخ پا کرنے کے لیے ان کے خلاف آگ پر تیل چھڑک دیا گیا ہو ۔
مسلمانوں کی مساجد، ان کے ریستورانوں، دکانوں اور ٹیکسی سینڈ وں پر ان دنوں اُن کاایک ہی موضوع تھا ’’ یہ ڈینش چاہتے کیا ہیں؟ کیا ہم اپنے پیغمبر کی توہین ہوتے دیکھیں اور خاموش رہیں! ، یہ پہلے پنگا لیتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ ہم ’’ آہ ‘‘ بھی نہ بھریں ‘‘۔ مسلمانوں کے حلقوں میں پائی جانی والی اس صورت حال سے میں کسی حد تک آگاہ تھا ۔ اور یہ بھی جانتا تھا کہ اگرچہ ان خاکوں کی اشاعت کے خلاف کئی مسلمان ملکوں میں بڑے پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے تھے اور ڈینش املاک و سفارتخانوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا ور ڈینش قومی پرچم بھی نذر آتش کیے گئے تھے اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’’ ڈنمارک اپنے اس مکروہ فعل پر امتِ اسلامیہ سے معافی مانگے لیکن اس اخبار نے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ بڑے سخت الفاظ میں لکھا تھا کہ ’’ مسلمانوں میں تحمل ہے ہی نہیں، وہ آزادی اظہار کو سمجھتے ہی نہیں اور جہاں تک حکومت کا تعلق تھا، اس نے اس معاملے پر ملک میں مسلمان ملکوں کے سفیروں سے بات تک کرنا مسترد کر دیا تھا۔ مجھے یاد تھا کہ ایک دو کو چھوڑ کر مسلمانوں کے اماموں نے جمعہ کے خطبوں میں ان خاکوں کی اگرچہ شدید مذمت کی تھی لیکن انہوں نے مسلمانوں کو ان کے خلاف صبر و تحمل سے کام لینے اور خالص جمہوری و قانونی طریقوں سے احتجاج کرنے کو کہا تھا اور ملکی قانون کی ذرہ بھر خلاف ورزی کرنے کے خلاف انتباہ کیا تھا ۔ البتہ ان کے اس انتباہ کے باوجود ایک اسلامی تحریک شاید حزب التحریر کے نوجوانوں نے کچھ احتجاجی مظاہرے کیے اور جلوس نکالا تھا اور ان کے اس جمہوری حق پر انہیں میڈیا میں لعن طعن کی گئی اور سیاستدانوں نے انہیں آزادی اظہار کے سلسلے میں ڈینش اقدار اور سوچ کو اپنانے پر زور دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ان کو ڈینش طرز آزادی اظہار قبول نہیں تو وہ اپنے اپنے ملک واپس چلے جائیں‘‘ ۔ میں اپنی سوچ میں کھویا ہوا تھا کہ اُن میں سے ایک نے بڑے زور سے بیرے کو آواز دی ’’ محمود! ہم سب کے لیے کچھ تازہ چائے ، قہوہ ، کافی اور کولڈ ڈرنک تو لاؤ بھائی۔‘‘
’’ بھائی ‘‘ کا لفظ سن کر مجھے یاد آیا کہ ابھی پچھلے دنوں خود وزیر اعظم نے یہ بیان دیا تھا کہ ’’ یہ غیر ملکی اور خاص کر مسلمان یہاں ڈنمارک میں اپنی ہی دنیا بسانا چاہتے ہیں ۔ یہ یہاں جمگٹھوں کی صورت میں رہتے ہیں ‘‘ ۔
’’ دیکھو نا، اب تو ہمیں فیکڑیوں اور کام کاج کی جگہوں پر بھی ڈینش عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ میرا فورمین تو مجھ سے کھچا کچھا سا رہنے لکھا تھا ۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ تم مسلمان اُس خاکے بنانے والے کارٹونسٹ کو قتل کرنا چاہتے ہو‘‘ ایک خشخشی سی داڑھی والا ، چابیوں کا ایک گچھا ہوا میں اچھالاتا ہوا بولا ۔ اپنے لباس اور چہرے مہرے سے وہ کوئی ٹیکسی ڈرائیور لگتا تھا ۔ بیرا محمود اُن کے لیے چائے، کافی اور کولڈ ڈرنک لا کر ان کی میز پر رکھ گیا تھا ۔
’’ہاں یہ بات تو ہے ‘‘ ایک نے چمچ سے کافی میں چینی ملاتے ہوئے ، پہلے کی بات کو آگے بڑھایا ۔ ’’ صرف کام کاج کی جگہوں پر ہی نہیں، عام لوگ تو اب ہمیں بسیں چلاتے یا ٹیکسیاں چلاتے دیکھ کر ان میں بیٹھنے سے گھبراتے ہیں ۔ ‘‘
’’ ہم ان میں کتنے ہی گھل مل کیوں نہ جائیں یہ ہمیں اپنے برابر سمجھتے ہیں نا اپنا حصّہ، اور یہی نہیں یہ تو سمجھتے ہیں کہ ہم نے ’’ ڈینش سماج کے اندر اپنا ایک متوازی سماج قائم کر رکھا ہے ‘‘ ۔ ایک نے کہا اور اپنی ٹوپی اتار کر میز پر رکھ دی ۔ اس کے سر کے بال اڑے ہوئے تھے ۔
’’ یہ باتیں تو ہم روزانہ سنتے ہیں۔ یہ ڈینش ملٹی کلچرل ازم ۔۔۔۔ وہ کہا کہتے ہیں کثیر الثقاتی ماحول پر تو یقین ہی نہیں رکھتے۔ وہ اپنی سفید جلد کے ساتھ ہمارا کالا، بھورا یا سنولا رنگ قبول ہی نہیں کر سکتے ‘‘ ۔ وہ نوجوان جوکچھ دیر پہلے بڑا جوش دکھا رہا تھا بولا ۔ ’’ کیا تم سبھی نہیں جانتے کہ ابھی کل ہی وزیر داخلہ کہہ رہے تھے کہ ’’ مسلمانوں کو یہاں شریعت نافذ نہیں کرنے دی جائے گی ۔ ڈنمارک میں اسلامی شرعی قوانین کا خواب دیکھنے والوں کو ہماری اقدار اپنانی ہوں گی یا انہیں یہاں سے جانا ہو گا ۔ مسلمانوں کو ڈینش معاشرے میں ’’ انٹگریٹ ‘‘ ہونا ہی پڑے گا ‘‘۔ اب اُن میں کچھ ہلچل سی ہونے لگی تھی اور ان میں دو تین نے اپنی اپنی کرسیوں پر پہلو بدل کر نوجوان کو بڑے غور سے دیکھنا شروع کردیا تھا ۔ ’’ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ یہ ہمیں ہمارے اپنے طور طریقوں، اقدار، رسم و رسوم یہاں تک کہ مذہب سے بھی کنارہ کش ہوجانے پر زور دیتے ہیں یہ انٹیگریشن تو نہ ہوئی یہ تو ’’آسیمیلیشن ‘‘ ہوئی ۔ ہم ڈینش بننے کے شوق میں اپنا سب کچھ کھو دیں، عجیب منطق ہے ان کی ۔۔۔۔ ہے نا؟ ‘‘ نوجوان نے دوسروں کی جانب دیکھا ۔ جو بڑے زور سے قہقہے لگا رہے تھے ۔
’’ سؤر ڈینش! ‘‘ اُن میں سے ایک جو بڑی عمر کا دکھائی دے رہا تھا اور اب تک خاموش تھا، بولا ۔ ’’ حرامیوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کا اصل باپ کون ہے اور طعنے ہمیں دیتے ہیں کہ ہمیں تہذیب ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے ان ۔۔۔ شیطان کی اولادوں پر!‘‘ اس نے اپنے ٹھنڈے مشروب کا ایک گھونٹ لیا ۔ شاید اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا ۔
’’ ہاں یار! اب دیکھو نا، ان ڈینشوں کے ہاں تو ماں بیٹے سے ، باپ بیٹی سے اور بھائی بہن سے مباشرت کرتے ہیں۔ اور تو اور خود باپ اپنی بیٹیوں کی دلالی کرتے ہیں، وہ تم ایکسٹرا بلیڈٹ اخبار اٹھا کر دیکھ لو ایسے کتنے ہی واقعات سے روزانہ بھرا ہوتا ہے۔‘‘ ایک انگڑائی لیتے ہوئے بولا ۔ ’’ یہ ہماری نسلوں کو بھی اسی طرح تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اب اور کچھ نہیں تو حجاب اور پردے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ ان کی اپنی عورتوں، لڑکیوں کو تو دیکھو عریانیت کے شوق میں بدن پر بس ایک گرہ کپڑے کی تہمت لگائے یوں گھوم رہی ہوتی ہیں کی جیسے سڑک پر نہیں اپنے باتھ روم میں ہوں اور انہیں کوئی دیکھ ہی نہیں رہا ، مادر ذاد ننگے، بے حیا!، ہم اپنے طریقوں سے اپنی نئی نسل کو اس گمراہی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ الٹا ہمیں ہی برا بھلا کہتے ہیں ، کہ ہم اپنی اولادوں کو سماج میں آگے نہیں بڑھنے دیتے، ہم انہیں دبا کر رکھتے ہیں، ان کی جبری شادیاں کر دیتے ہیں، اور خود یہ ڈینش جو بن بیاہی مائیں بنتی ہیں ، اپنے ہی باپ یا بھائی کی داشتہ ہوتی ہیں انہیں سماج کی یہ برائیاں دکھائی نہیں دیتیں ۔ مرد ، مرد سے اور عورتیں، عورتوں سے شادیاں کر رہی ہیں اور پادری ان کے نکاح پڑھواتے ہیں ۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری اولادیں اسی دلدل کے کنویں میں گر جائیں ۔ استغفر اللہ !‘‘
میں نے اپنی ٹھنڈی کافی کی ایک لمبی چسکی لی ۔ ’’ یہ لوگ اپنے ہی تہذیبی حصار میں کس قدر محصور ہیں ‘‘ ، میں نے سوچا۔ اور بیرے کو ایک تازہ کافی لانے کو کہا ۔
’’ بھائیو، چھوڑو ان باتوں کو ، ہم کتنے ہی اپنے آپ کو ڈینش بنا لیں، یہ جو گوری رنگت، نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والے ہیں نا یہ ہمیں کبھی اپنے برابر نہیں سمجھیں گے، اب ہماری نئی نسل ہی کو لے لو ، ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود ان میں سے کئی ایک تو بلکل ڈینشوں کی ڈگر پر چل رہے ہیں لیکن نتیجہ کیا، خاک!، نہ انہیں کوئی روزگار دیتا ہے، نہ انہیں شبینہ کلبوں میں داخل ہونے دیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ وہ بیچارے تو ڈینشوں کی نظروں میں ، سزا یافتہ مجرم سمجھے جاتے ہیں ‘‘۔ ایک پہلو بدلتے ہوئے بولا ۔ ’’ اب ایسے میں یہ نوجوان اپنے گروپ نہ بنائیں کو کیا کریں ۔ وہ بھی تو اجتماعیت چاہتے ہیں ۔ محصور کیوں رہیں ۔ انٹگریشن کے نام پر آسیمیلیشن ‘‘ کیوں قبول کریں ۔ آخر اپنا تشخص کیوں کھوئیں، سماج کی اچھائیوں پر انہیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن یہ تو ڈینش خود میں جو انہیں، طرح طرح کے ناموں سے پکارتے اور انہیں خود سے دور دھتکار دیتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ مسلمان نوجوان، حزب التحریر یا الشباب میں جا رہے ہیں‘‘۔
میں نے دیکھا کہ یہ کہنے والے کے چہرے پر عجیب طرح کے تاثرات تھے ۔ اب وہ بڑے آرام سے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائے اپنی تسبیح کے دانے گھما رہا تھا ۔
’’ ہاں بھئی یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ڈینش غالب اکثریت ہم اقلیتوں کو الزام تو دیتی ہے لیکن ہمیں ساتھ ملانے کے لئے ہماری بات تک نہیں سنتی اور اپنی ہی مرضی ہم پر تھونپنے میں لگی ہوئی ہے۔ بھلا ایسے بھی ہو سکتا ہے!‘‘ ان میں سے ایک نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔
بیرا میرے لیے کافی لے آیا تھا۔ میں نے ایک چسکی لی اور پھر میز پر پڑے ہوئے اخبار کو یونہی الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا ۔ میرے کان اُن کی باتوں پر لگے ہوئے تھے ۔
’’ تو پھر کیا خیال ہے حاجی! ‘‘ اُن میں سے ایک اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے کو کہنی مارتے ہوئے بولا ۔ ’’ اب کیا یہیں بیٹھے رہیں گے یا کچھ کام بھی کریں گے؟‘‘
میرا ذہن اب ماؤف ہونے لگا تھا اور میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ غیر ملکی، یہ مسلمان ، ڈینشوں اور سماج کے متعلق جو کچھ کہہ رہے ہیں ، ہے تو ٹھیک لیکن سماج ان کی آواز کیوں نہیں سنتا ۔ یہ سیاستدان، یہ میڈیا جس میں خود میرا اخبار بھی شامل ہے، یہ دانشور اور محقیقن آخر ان مسلمانوں ہی کے بارے میں کیوں شور مچاتے رہتے ہیں ۔ محض اس لیے کہ وہ سماج کی برائیوں سے بچنا چاہتے اور اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے اپنے دینی تشخص اور سماجی رسوم و اقدار کو محفوظ رکھنا اور انہیں اپنی نئی نسل کو منتقل کرنا چاہتے ہیں ۔ بالکل ویسے ہی جیسے برسوں پہلے ڈنمارک سے ہجرت کر جانے والے، امریکہ کینیڈا، آسٹریلیا اور نجابے کن کن دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہو جانے والے ڈینش کرتے ہیں ۔ میں نے بڑی مشکل سے کافی کا ایک گھونٹ حلق سے نیچے اتارا ۔ اور اخبار کوایک طرف رکھ دیا ۔
ابھی میں وہاں کچھ دیر اور بیٹھنے یا چلنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ کیفے ٹیریا کا دروازہ کھلا اور عربی لباس میں ملبوس، سر پر بڑے ہی خوبصورت انداز میں ٹوپی پہنے ، باریش ، مسکراتا ہوا ایک شخص داخل ہوا ۔ اپنے اس عربی لباس اور اپنی وضع قطع سے وہ تیونس سے لگتا تھا۔ وہ سیدھا اسی میز کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں وہ سبھی بیٹھے ہوئے ۔ جونہی وہ اُن کے قریب پینچا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے اپنے مشروب چھوڑ کر بڑے ادب کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور بڑی تعظیم کے ساتھ اس سے مصافحہ کرنے لگے اور ایک دو نے تو اُس کے ساتھ باقاعدہ معانقہ بھی کیا ۔ میرے خیال میں وہ پڑوس والی مسجد کا امام تھا ۔
’’ تو تم لوگ نماز جمعہ کے بعد سے یہاں بیٹھے ہوئے ہو‘‘ ۔ اس نے میز پر پڑے ہوئے ان کے مشروبات کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’جی ‘‘ ان میں سے ایک نے گردن جھکائی ۔
’’ میں ذرا یونہی مسجد سے باہر نکلا تھا، کیفے کے دروازے کے شیشے سے تھمیں یہاں بیٹھے دیکھا تو سوچا تمھیں سلام کرتا چلوں ۔‘‘ میرا شک ٹھیک نکلا ۔ وہ مسجد کا امام ہی تھی ۔
’’ آئیے، تشریف رکھیں‘‘ ۔ ان میں ایک نے اپنی کرسی آگے بڑھاتے ہوئے اسے بیٹھنے کی دعوت دی ۔ ’’ آپ کچھ پیئیں گے، چائے، قہوہ، کافی یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ نہیں، نہیں، مجھے جانا ہے ۔ تم لوگ بیٹھو، باتیں کرو۔ میں چلتاہوں تم عشا کی نماز کے لیے آؤ گے تو باتیں ہوں گی ۔ مراکشی قہوہ میری طرف سے ہو گا ‘‘ امام نے سب سے باری باری مصافحہ کیا ۔ ’’ اچھا تو فی امان اللہ ‘‘ عشا کے وقت ملاقات ہوگی ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ مڑا اور دروازے کی جانب چل دیا ۔
’’ عشا کے وقت ملاقات ہوگی! ‘‘ ان میں سے ایک بولا ۔ ’’ ٹیکسی اس کا باپ چلائے گا، جمعہ کی شام اور ویک اینڈ ہی تو کمائی ہوتی ہے جب ڈینش نشے میں مدہوش ہوتے ہیں۔ انہیں ہم ہی تو گھر پہنچاتے ہیں ‘‘ ۔ اس پر سب نے قہقہہ لگایا ۔
میں نےاُن سب پر ایک نظر ڈالی ۔ ان کے چہروں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔ اُن کو یوں مسکراتے دیکھ کر میرے ذہن میں سوال آیا کہ یہ لوگ ڈنمارک کے لیے کیسے خطرہ ہو سکتے ہیں ، ان کا دین و مذہب ان کی اقدار ہمارے ڈینش سماج کے لیے کیوں زہر سمجھی جاتی ہیں؟ میرے ذہن میں اسی طرح کے کئی سوال سر اٹھا رہے تھے ۔ ہمارے سیاستدان ان لوگوں کے پس منظر اور ڈینش سماج میں آگے بڑھنے کے لیے ان کی خواہشات اور اپنی اولادوں کے بارے میں فکر و سوچ کو کیوں نہیں سمجھتے اور ان اقلتی برادریوں پر اپنے دروازے کیوں نہیں کھلنے دیتے؟‘‘ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ بیرے نے مجھے متوجہ کیا ’’ تم نے کافی پی لی، میں پیالی اٹھا لوں؟‘‘
میں نے اسے پیسے ادا کئے اور وہاں سے اُٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کیفے ٹیڑیا سے باہر نکل آیا ۔ کچھ ٹھنڈی ہوا کے باوجود مجھے پسینہ آ رہا تھا ۔۔۔۔ اور اب میرے ذہن میں بس ایک ہی خیال تھا کہ کیا میں مسلمانوں بارے ویسا ’’ کڑاکے دار مضمون ‘‘ لکھ پاؤں گا جیسا میرا مدیر چاہتا ہے ۔
شاید کبھی نہیں! ۔

تغیّر

November 11th, 2011

ایک اور ظالم ماہ ختم ہوا، لیکن
ہمارے لیے چھوڑ گیا ہے بے کفن لاشوں کے انبار
حتیٰ کہ سانس لینا بھی موت ہے
اورپانی پینا بھی مرگ حیات ہے ۔
میں اتنی اموات سے دُ کھی نہیں ہوں، لیکن
میرا وطن اتنے قبرستانوں کا متحمل نہیں ہو سکتا
ہمیں اب وسیع اجتماعی قبریں کھودنا چاہیئے
جہاں ہم اپنے امن کے خوابوں اور امیدوں کو دفن کر سکیں۔
ہمارا مستقبل تو آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے
خون کی اُن ندیوں میں جو آئے دن پہاڑوں سے،
میدانوں کی جانب بہتی آتی ہیں، اور
سب کچھ ساتھ بہا لے جاتی ہیں ۔
نصر ملک ۔ کوپن ہیگن
یکم اکتوبر ٢٠١١ ء

اپنے ہی گھر کی تعمیر

June 7th, 2011

اپنے ہی گھر کی تعمیر

ایک بڑھئی جسے ایک ٹھیکدار کے ہاں کام کرتے اور لوگوں کے لیے گھر تعمیر کرتے ہوئے عرصہ گزر چکا تھا، اس نے اب کام چھوڑ دینے اور اپنی باقی زندگی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔  اُس نے اپنے اس فیصلے سے جب ٹھیکدار کو مطلع کیا تو ٹھیکدار نے اُسے بہت سمجھایا اور کام جاری رکھنے کو کہا لیکن جب بڑھئی نہ مانا تو ٹھیکدار نے اسے اپنی اک یادگار چھوڑجانے کے لیے صرف ایک آخری مکان تعمیر کرنے کی درخواست کی ۔  ’’یہ مکان تمھاری نشانی ہو گا اور مجھے اور اس  مکان میں رہنے والوں کو تمھارے بے مثال ہنر کی یاد دلاتا رہے گا ‘‘۔  ٹھیکدار نے اُس سے کہا ۔
بڑھئی نے ٹھیکدار کے کہنے پر مکاں کی تعمیر تو شروع کردی لیکن چند ایک دن میں اُس کا دل کام کرنے بھر سےگیا اور جس قسم کا بھی سمینٹ، اینٹیں، لکڑیاں اور دوسرا سامان ِتعمیر اسے ملا اُس نے کوئی چھان بین کیے بغیر اسے مکان کی تعمیر میں لگا دیا۔ وہ جلد سے جلد اس کام سے فارغ ہو جانا چاہتا تھا ۔ زندگی بھر دوسروں کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ مکانات تعمیر کرنے والے ایک نامی گرامی بڑھئی کے لیے اس طرح جلد بازی اور بے دلی سے مکان تعمیر کرنا ایک بدقسمتی تھی ۔
جب مکان تعمیر ہو گیا تو ٹھیکیدار اُس کے معائینے کے لیے آیا اور اُسے اندر و باہر سے دیکھ کر مکان کے بڑے دروازے پر آن کھڑا ہوا ۔ بڑھئی ابھی اُس سے پوچھنے ہی والا تھا کہ اسے مکان کیسا لگا کہ ٹھیکیدار نے مکان کے بڑے دروازے کی کنجی اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’  یہ مکان دراصل میرے لیے تمھاری خدمات کے عوض ایک تحفہ ہے، جاؤ اپنے بال بچوں کو لے آؤ اور یہاں رہو۔‘‘
بڑھئی وہاں بے حس و حرکت ایک بت بنا کھڑا تھا۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کیوں؟


محبت اور وقت

May 23rd, 2011

محبت اور وقت
از :  نصر ملک

قدیم زمانے کی بات ہے، ایک بہت ہی خوبصورت چھوٹے سے جزیرے پر سبھی  ’’  احساسات و جذبات ‘‘ ،  خوشی ، غمی، دانش  اور بہت سے دوسرے جن میں محبت بھی شامل تھی ، ایک ساتھ اکٹھے رہتے تھے ۔ ایک دن ان سب کو بتایا گیا کہ جزیرہ ڈوبنے والا ہے لہٰذا وہ اپنے  بچاؤ کے لیے کشتیاں تیار کر لیں ۔ اُن سب نے ایسا ہی کیا اور پھر اپنی اپنی کشتی پر سوار ہو کر جزیرہ چھوڑگئے، لیکن محبت نے نہ کشتی بنائی اور نہ ہی جزیرے کو چھوڑا ۔
اب جزیرے پر صرف محبت ہی تھی جو رہ گئی تھی اور وہ جہاں تک ممکن تھا، آخری لمحے تک وہیں رہنا چاہتی تھی ۔
جب جزیرہ کم و بیش ڈوب گیا تو محبت نے مدد کے لیے پکارا ۔
عین اُسی لمحے ’’ امارت ‘‘ قریب ہی سے اپنی بڑی کشتی میں سوار گزر رہی تھی ۔
محبت نے اُسے دیکھا تو زور سے آواز دی، ’’ امارت بہن کیا تم مجھے اپنے ساتھ لے چلو گی؟ ‘‘۔
’’ نہیں، میں تمھیں اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتی ۔ میری کشتی میں بیشمار سونا ، چاندی  اور جواہرات لدے ہوئے ہیں ۔ یہاں تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں‘‘۔  امارت نے کہا ۔
محبت نے ’’ تکبر ‘‘ سے پوچھا،  ’’ تکبر بھائی میری مدد کرو، مجھے اپنے ساتھ لے چلو‘‘۔
’’ نہیں میں تمھاری مدد نہیں کرسکتا‘‘۔ تکبر اپنی خوبصورت کشتی کو آگے بڑھاتا ہوا بولا ۔  ’’ تم پوری طرح بھیگی ہوئی ہو اور میری کشتی کو نقصان پہنچا سکتی ہو‘‘۔
اپنی کشتی میں سوار ’’ خوشی ‘‘ جونہی محبت کے قریب سے گزری اُس نے اُس سے بھی وہی سوال کیا لیکن،  خوشی اپنے آپ میں یوں خوش تھی کہ اُس نے محبت کی آواز ہی نہ سنی ۔
محبت نے  قریب سے کشتی میں گزرتی ہوئی ’’ اُداسی ‘‘  سے کہا کہ وہ  اُسے اپنے ساتھ اپنی کشتی میں سوار کرلے ۔
’’اوہ، پیاری محبت! میں ایسا نہیں کر سکتی، میں خود اتنی اداس ہوں کہ میں اپنے آ پ ہی میں رہنا چاہتی ہوں‘‘۔
پھر اچانک وہاں ایک آواز آئی ، ’’ محبت آؤ ! ادھر آؤ ، میں تمھیں اپنے ساتھ  لے چلتی ہوں ‘‘۔  یہ ایک بوڑھی آواز تھی ۔ محبت کی جان میں جان آئی اور وہ خوشی میں یہ جاننا بھی بھول گئی کہ وہ کس کی آواز تھی اور وہ اُسے کہاں لے جا رہی تھی ۔ جب وہ  خشک زمین پر پہنچیں تو  بوڑھی نے اپنی راہ لی اور اچانک غائب ہو گئی ۔ محبت سوچتی ہی رہ گئی کہ وہ بوڑھی کا شکریہ کیسے ادا کرے ۔
محبت نے ایک اور بوڑھی  ’’ دانش ‘‘  سے پوچھا کہ اگر وہ جانتی ہو کہ کہ اُس کی مدد کس نے کی تھی؟
’’ یہ ’’ وقت ‘‘ تھا ‘‘ ، دانش نے جواب دیا ۔
’’ وقت؟‘‘ ، محبت نےحیرانی سے پوچھا ۔ ’’ لیکن وقت نے میری مدد کیوں کی ؟ ‘‘۔
دانش نے مسکراتے ہوئے ایک گہری حکیمانہ سانس لی اور بولی، ’’ کیونکہ یہ صرف وقت ہی ہے جو سمجھ سکتا ہے کہ ’’ محبت ‘‘  کتنی قیمتی ہے‘‘ ۔

قارئین کرام! کہا آپ بھی ’’وقت ‘‘  سے متفق ہیں کہ ’’محبت ‘‘ سے بڑھ کر کوئی اور قیمتی شے ہو ہی نہیں سکتی؟

 

 

 

طوفان میں گھرا عقاب

May 22nd, 2011

طوفان میں گھرا عقاب
از نصر ملک

کیا آپ جانتے ہیں کہ  عقاب کسی طوفان کی آمد سے بہت پہلے ہی آگاہ ہوجاتا ہے؟
طوفان کی آمد سے پہلے ہی عقاب بلندی پر پرواز کر تے ہوئے، طوفانی ہوا کے آنے کا انتظار کرتا ہے اور جب طوفان اُمڈ آتا ہے تو عقاب اپنے پنکھ کچھ یوں پھیلا دیتا ہے کہ ہوائیں اُسے نیچے سے اُوپر اٹھا کر ، طوفان سے بہت اوپر لے جاتی ہیں تب طوفان اُس کے نیچے سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اور عقاب اُس کے اوپر  بلند پرواز کرتے ہوئے ’’ اوج ‘‘ پر پہنچ چکا ہوتا ہے ۔
عقاب طوفان کی آمد کو روک نہیں سکتا اور نہ ہی اِس سے بچ سکتا ہے لیکن وہ طوفان کو یوں استعمال کرتا ہے کہ وہ اُسے ’’اوج‘‘ پر پہنچا دیتا ہے  اور وہ اُن ہواؤں کے اُوپر محو پرواز رہتا ہے جو طوفان لاتی ہیں ۔
زندگی کا طوفان جب ہمیں آن گھیرتا ہے تو ہم عقاب کے اس اصول کو آزما اور اپنا سکتے ہیں ۔ ہم  اپنے اعتقاد و یقین  اور ذہن کو مضبوط و پختہ بنا کر ان طوفانی ہواؤں اور طوفان پر حاوی ہو سکتے ہیں اور اِن سے اوپر ، پرواز سکتے ہیں ۔ خود کو طوفانی جھکڑوں سے نکال کر ’’ عروج‘‘ پر جانے  کے لیے، ہم قدرتی قوتوں کو ، جو خود ہمارے ہی اندر ہوتی ہیں،  بروئے کار لا سکتے ہیں ۔
ہم اپنی قوت ایمانی سے،  طوفانوں کی اُن بلاؤں پر قابو پا سکتے ہیں جو ہماری زندگیوں میں بیماریاں، سانحے، ناکامیاں اور مایوسیاں لاتی ہیں۔ ہم طوفانوں سے بالا،  ’’ اوج ‘‘ پر پہنچ سکتے ہیں ۔
یہ زندگی کا بوجھ نہیں ہوتا جو ہمیں نیچے دبا دیتا ہے  بلکہ یہ تو وہ طریقہ ہوتا ہے جو ہم اس بوجھ کو اتارنے کے لیے اپناتے ہیں ۔

 تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

 

صدائے باز گشت

May 22nd, 2011

صدائے باز گشت

از : نصر ملک

ایک درویش اور اُس کا چیلا، پہاڑوں میں کہیں سفر کر رہے تھے ۔
اچانک چیلے کا پاؤں پھسلا اور وہ گر گیا ۔ اس طرح اُسے ایک سخت چوٹ لگی اور درد سے اُس کی چیخ نکل گئی ۔
وہ اپنی درد کی شدت تو بھول گیا لیکن حیران تھا کہ اُسے اُسی طرح کی چیخ دوسری جانب سے، کہاں سے سنائی دی ۔
اب وہ شوق میں چلایا،  ’’ تم کون ہو؟‘‘
جواب میں اُسے بھی یہی سنائی دیا،  ’’ تم کون ہو؟‘ُ
وہ پھر پہاڑ کی طرف منہ کرکے چلایا،  ’’ میں تمھاری تعریف کرتا ہوں!‘‘
دوسری طرف سے بھی ہو بہو وہی صدا سنائی دی،  ’’ میں تمھاری تعریف کرتا ہوں!‘‘
اس جواب پر وہ سخت غصے میں چلایا،  ’’ ڈرپوک سامنے تو آ! ‘‘
اب دوسری جانب سے بھی یہی آواز سنائی دی، ’’ ڈرپوک سامنے تو آ! ‘‘
اب چیلے کے صبر کا پیمانہ بھر چکا تھا، اُس نے اپنے گرو درویش کی جانب دیکھا اور پوچھا ، ’’ گرو یہ سب کچھ کیا ہے؟‘‘
درویش مسکرایا اور بولا،  ’’ میرے بیٹے، میرے چیلے، دھیان دو ‘‘۔
اب چیلے نے ایک زوردار آواز لگائی ،  ’’ تم اعلیٰ ترین ہو!‘‘۔
دوسری جانب سے بھی یہی جواب ملا،  ’’ تم اعلیٰ ترین ہو! ‘‘۔
اب چیلے کی پریشانی مزید بڑھ گئی تھی اور اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہے اور ایسا کیوں ہے کہ جو کچھ وہ خود کہتا ہے دوسری جانب سے اُسے وہی بات جواب میں ، ہو بہو دہرا دی جاتی ہے ۔ چیلا اس معاملے کو سلجھا نہ سکنے پر بہت پریشان اور رنجیدہ تھا ۔
درویش نے چیلے کی یہ حالت دیکھی تو بولا،  ’’ یہ صدائے بازگشت ہے،  لوگ اِسے گونج بھی کہتے ہیں، یہ تمھیں ہر وہ شے ہو بہو واپس لوٹا دیتی ہے جو تم کہتے یا کرتے ہو۔ ہماری زندگی ہمارے اعمال کا  ’’ پر تُو ‘‘ ہے ۔ اگر تم دنیا میں زیادہ محبت چاہتے ہو تو  اپنے دل میں زیادہ محبت پیدا کرو۔  اگر تم اپنے سنگھیوں کی ٹولی میں زیادہ صلاحیت پیدا کرنا چاہتے ہو تو اپنی استبداد کو بہت بناؤ اور اُسے بڑھاؤ۔ یہ تعلق ، زندگی کے تمام پہلوؤں میں ، ہر شے پر لاگو ہوتا ہے ۔ زندگی تمھیں ہر وہ شے واپس لوٹائے گی جو تم اُسے دو گے ۔تمھاری زندگی محض  ’’ اتفاق ‘‘ نہیں ۔ یہ تمھارا ہی ’’ پَرتُو ہے !‘‘
جی تو قارئین، آپ کی کیا رائے ہے، اس باے میں؟