ایک بدعت گذار ستمکار کی موت

نصر ملک، کوپن ہیگن

ایک بدعت گذار ستمکار کی موت

ایک نوجوان مبلغ یہ کہہ کر اپنی بستی کے لوگوں سے دور چلا گیا کہ اگر خداوند نے مجھے زندہ رکھا تو میں پچاس سال  بعد اپنی بستی میں آؤں گا ۔ اُس  نےبوقت رخصت اپنے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ وہ اس کے لیے دعا کریں کہ وہ خداوند کے ابدی پیغام کو پھیلا سکے اور تبلیغ کے جس مشن پر وہ روانہ ہو رہا ہے ، خود خدا اُس کی نگہبانی کرے اور اسے کامیابی سے نوازے۔

پچاس سال بعد، کڑاکے کی سردی میں، ایک رات ،ایک بہت ہی ضعیف و لاغر باریش فرد، پرانا جبہ  پہنے، اپنے گدھے کو ساتھ لیے، اسی بستی میں داخل ہوا اور اپنے گدھے کو بستی کے معبد کے باہر باندھ  کر خود سیدھا معبد میں داخل ہو گیا ۔ وہاں پر ہرشے ویسی ہی تھی جیسی پچاس سال پہلے تھی ۔ اُس نے  معبد کے مینار پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا ، “ میں آ گیا ہوں!، میں آ گیا ہوں!!‘‘جن لوگوں  نے اُس کی پکار سنی وہ معبد کی طرف بھاگے ۔ ہر کسی کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال تھا ، “ یہ کون ہے؟ ‘‘۔
اور جب وہ سب معبد میں اکٹھے ہوگئے تو اجنبی مینار سے نیچے اتر کر اُن کے درمیان آن کھڑا ہوا،  “ کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟‘‘  اُس
نے اُن سے پوچھا ۔ اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی اپنی کہانی سنا دی کہ کس طرح وہ پچاس سال پہلے اس بستی کو چھوڑ گیا تھا تاکہ خدا کے ابدی پیغام کو لوگوں تک پہنچا سکے۔
بھیڑ میں موجود بڑے بزرگوں اور اُس کے ہمعمر لوگوں نے اسے پہچان لیا تھا اور اُس کی آمد کو اپنے لیے نیگ شگون قرار دے رہے تھے ۔  “ ہمیں اپنے سفر کے بارے میں بتاؤ‘‘،  اُن میں ایک جو ایک ہاتھ میں چراغ اور دوسرے میں مقدس کتاب تھامے ہوئے تھا بولا ۔ اپنے حلیے سے وہ بھی کوئی امام و مبلغ ہی دکھائی دے رہا تھا ۔
 “ ہاں، ہاں! میں سب کچھ بتاتا ہوں‘‘ وہ مبلغ جو اب اسی پچاسی سال کا بوڑھا و ناتواں معمر دکھائی دیتا تھا بولا ۔
 پھر وہ سب معبد کے اندر ایک دائرے میں بیٹھ گئے اور اُس معمر و ناتواں مبلغ نے بولنا شروع کیا ؛
 “پچاس سال پہلے اپنی اس بستی کو چھوڑ کر میں کہاں کہاں گیا؟،  یہ تو ایک طویل قصہ ہے اور میرے ان پچاس سال کے سفر، تبلیغ اور لوگوں کے رویے کی داستان بھی بہت لمبی ہے، لیکن ایک بات جو میں اس وقت  آپ سب سے کہنا چاہتا ہوں، وہ میں خود اُن لوگوں سے سیکھ کر آیا ہوں جنہیں میں تبلیغ کرنے گیا تھا‘‘۔ 
اب اُس نے ایک گہری سانس لی اور پھر کہنے لگا،  “ میرے بزرگو، میرے ہم عمرو، میرے عزیزو، سنو! ، غور سے سنو، جو میں
کہنے لگا ہوں یہی میرے پچاس سال کے تبلیغی سفر کا نچوڑ ہے‘‘۔  سبھی لوگ ہمہ تن گوش تھے اور معمر مبلغ کے فرمان کے منتظر تھے ۔
معمر مبلغ نے اپنا جبہ درست کیا اور اپنی دستار سر پر سجائی اور لمبی  ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُن سے مخاطب ہوا،  “ میں ایک دن  دوردراز کے ایک ایسے گاؤں میں گیا جہاں لوگ ایک میت کو دفنانے جا رہے تھے ۔ میں بھی جنازے کے ساتھ ساتھ ہو لیا اور پھر قبرستان پہنچنے پر میت کو لحد میں اتارنے کے لیے میں بھی دوسروں کے ساتھ شامل ہو گیا ۔ یہی پر میں لوگوں کی نگاہ میں آگیا اور وہ ایک مبلغ ہونے کی میری حیثیت کو جان گئے اور مجھے عزت و تعظیم سے نوازا ۔  میت کو دفن کرنے کے بعد جب سب لوگ قبرستان سے واپس گاؤں جانے لگے تو مرحوم کے لواحقین نے مجھے بھی  اپنے ساتھ لے لیا اور اپنے ہاں شب بسری کی دعوت دی جو میں نے قبول کر لی ۔  میں اُن کے ہاں تین دن تک رہا لیکن میرے بزرگوں میرے ہمعمرو اور میرے عزیزو! اب جو کچھ میں تمھیں بتانے والا ہوں ، سنو گے تو کانپ جاؤ گے!،  وہ شخص جو میرا تھا وہ بڑا بدعتی اوربڑا ستمکار تھا۔ یہ بات مجھے اُس کے لواحقین کے پڑوسیوں نے بتائی تھی ۔ وہ نہ کبھی معبد میں جاتا تھا اور ہی اُس نے خداوند کے حضور کبھی کوئی قربانی دی تھی ۔ وہ گاؤں کے لوگوں کو ان کے عبادت گذار ہونے پر طعنے بھی دیا کرتا تھا، اور اب سنو!،  جب اُس کے لواحقین اسے دفنانے کے بعد دوسرے دن الصبح دستور کے مطابق اس کی قبر دیکھنے گئے تو انہوں نے اُس کی میت کو قبر کے باہر پڑا ہوا پایا، ارض خدا نے اس کی میت کو قبول نہیں کیا تھا ۔ اب لواحقین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میت کے ساتھ کیا کیا جائے۔ بالآخر انہوں نے اسے قبرستان کے ساتھ بہنے والے دریا میں پھینک دینے کا فیصلہ کیااور یہ کام کر کے واپس گھر لوٹ آئے ۔  اب اگلے دن الصبح وہ دریا کے کنارے وہاں پہنچے جہاں سے انہوں نے میت کو دریا میں پھینکا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور توبہ استفسار پڑھنے لگے کہ دریا نے بھی اس کی میت کو قبول نہیں کیا تھا اور اُسے کنارے سے باہر پھینک دیا تھا ۔ اب وہ بہت پریشان تھے کہ میت کو کہاں ٹھکانے لگائیں، زمین نے اسے قبول نہیں کیا تھا اور دریا نے بھی اسے باہر پھینک دیا تھا ۔ وہ اسی پریشانی کے عالم میں سوچ رہے تھے کہ اُن کے ایک برزگ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ میت کو جلا دیں کہ یہی خداوند کی مرضی ہے ۔  پہلے تو وہ گبھرائے لیکن جب خاندان کے دو تین دوسرے بزرگوں نے بھی اس پراتفاق کیا تو انہوں نے ایک چتا جلائی اور میت کو اس میں پھینک دیا۔“ معمر مبلغ تھوڑی دیر کے لیے رکا، اپنا گلا صاف کیا اور پھر بولا؛  “ میرے بزرگو، میرے ہمعمرو، میرے عزیزو، جب انہوں نے میت کو چتا میں پھینک دیا تو جانتے ہو کیا ہوا!، چتا کی ساری لکڑیاں جل کر راکھ ہوگئیں لیکن اس بدعتی کی میت جوں کی توں رہی، اسے آگ نے بھی قبول نہیں کیا تھا ۔ میرے بزرگو، میرے ہمعمرو، میرے عزیزو، تم سب اس سخت سردی میں اتنی رات گئے، میری پکار پر یہاں آئے ہو اور جاننا چاہتے ہو کہ میں  نے پچاس سال کے عرصے میں کیا تبلیغ کی ، کیا دیکھا اور کیا سیکھا،  توآج جب میں اسی پچاسی سال کا کمزور بوڑھا ہو گیا ہوں اور ابھی جو ایک سچااور چشم دید واقعہ میں نےآپ کو سنایا ہے، اُس کے نتیجے میں میری تبلیغ کا نچوڑ یہی ہے کہ ہم سب بدعت و ستم کاری سے دور رہیں، ان سے توبہ کریں، نیک و راستباز بنیں اور خدا کی مقدس کتاب اور اُس کے رسولوں کے فرمودات پر عمل کریں تاکہ، ہم جب مریں اور زمین اگر ہمیں  اپنے اندر نہ سمیٹے  یا دریا ہماری میتوں کو اچھال کر باہر  پھینک دیں تو کم سے کم آگ تو ہمیں جلا کر راکھ کر دے ۔ آمین ۔

 

 

 

 

 

Leave a Reply

You must be logged in to post a comment.