جوبلی تقریب میں تقریر
ایک مختصر کہانی
از : نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک ۔
جونہی اس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ حکومت کی جوبلی کی تقریب میں تقریر کرے گا تو ملک بھر کے میڈیا میں یہ نوید سنائی گئی کہ بالآخر اسے عزت و تقریم سے نوازا گیا ہے اور حقدار کو اس کا حق مل گیا ہے ۔ جو کہ بہت بڑی خوشی کی بات تھی ۔ لیکن بذات خود وہ سخت گومگو میں مبتلا تھا ۔ کیا واقعی اسے عزت و وقار سے نوازا گیا ہے ؟
اپنے ہمعصروں سے بہت مختلف رہتے ہوئے اُس نے تو کبھی حکمرانوں کے متعلق کچھ کہا ہی نہیں تھا ۔ اس کا اسے مکمل یقین تھا کہ حکومت کے بارے میں اُس نے کبھی کسی بھی طرح کی کوئی لب کشائی نہیں کی تھی ۔ اور اگر احباب کی محفل میں کبھی حکومت کے بارے میں بات چلی بھی تو اس نے اِس پر بھی آزادی اظہار کے اپنے بنیادی حق تک کو استعمال نہیں کیا تھا ۔ وہ یہ ضرور سمجھتا تھا کہ حکومت کی جوبلی کے سلسلے میں ہونے والے جشن کی تقریب میں اُسے تقریر کرنے کو کیوں کہا گیا ہے ۔ وہ ابھی تک اُن چند ایک خوش نصیبوں میں شامل تھا جنھیں بیرون ملک. عالمی سطح پر جانا جاتا اور اُن کی عزت کی جاتی تھی۔ اور یہ سبھی کچھ . شہرت و عزت ‘ اُسے اس لیے حاصل تھی کہ اس نے جو کچھ بھی لکھا تھا وہ اس پر قائم تھا۔ اور خاص کر جوبلی منانے والی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو تب بھی اس کا وہی نظریہ تھا جو آج تھا اور جس پر وہ بڑی ثا بت قدمی سے قائم تھا یعنی کہ وہ ہر اس عمل اور اقدام کے خلاف تھا جو حکومت لے چکی تھی یا لینے کا ارادہ کر رہی تھی ۔ اب اگر حکومتی جوبلی منانے کا بندوبست کرنے والی سرکاری کمیٹی والے اُس سے تقریر کرانے اور حکومت کو سراہنے کے لیے اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو لوگوں کی نظروں میں تو یہ عمل حکومتی کارکردگی کو اُس کی جانب سے سر عام تسلیم کرنے کے مترادف ہو سکتا تھا اور حکومت لوگوں کو یہ تاثر بھی دے سکتی تھی کہ اُس جیسا عظیم فرد بھی اُس سے متفق ہے ۔
اپنی تقریر میں اگر وہ وہی کچھ کہے جواس کا مقصد ہے ‘ تو بغیر کسی شک و شبہ کے اس کامنہ بند کردیا جائے گا ۔ سٹیج سے ٹرانسمیشن کو کسی ’’ تکنیکی خرابی ‘‘ کا بہانہ بنا کر روک دیا جائے گا ۔ ’’ خوب ! ‘‘ اسے خیال آیا ’’ یہ تو اُس کی اخلاقی فتح ہوگی اور خود ڈکٹیٹر کی شکست !! ‘ تو کیا اُسے یہ اہم ترین تقریر کرنی چاہیے ؟ وہ سوچنے لگا ۔ ڈکٹیٹر اور اس کے حواری اتنی ہمت نہیں رکھتے تھے کہ اُس کے خلاف کھلم کھلا کہیں کہ وہ ایسا اہم بالکل نہیں جیسا کہ اُس کے بارے میں اندرون ملک اور بین القوامی برادری میں کہاجاتا ہے ۔
اُس نے یہ بھی سوچا کہ وہ تقریر کے لیے دعوت کو شکریے کے ساتھ نا کر دے ۔ اس طرح اُسے ڈ کٹیٹراور اس کی حکومت کے متعلق اپنے نظریات پر ڈٹے رہنے والا تو سمجھا جائے گا ۔ لیکن نہیں ‘ اسے پھر خیال آیاکہ اس طرح تو ڈکٹیٹر اور اس کے وزیر اور حواری اس پر یہ االزام لگا دیں گے کہ وہ ’’ ملک و قوم کی بہتری و فلاح اور استحکام کے لیے تعاون کرنے پر تیار ہی نہیں اور وہ اس پر خوش بھی ہوں گے کہ اُس نے خود ہی اپنا منہ بھی بند کر لیا ہے ۔‘‘ اس کے اس انکار کی تو کبھی تشہیر بھی نہیں کی جائے گی اور اس کی جگہ کسی دوسرے کو تقریر کرنے کے لیے دعوت دے دی جائے گی ۔ اور پھر ہرایک پر یا جو اِن باتوں پر دھیان رکھتے ہیں ‘ کم از کم اُن پر تو یہ واضح ہو ہی جائے گا کہ وہ نہ تو وطن دشمن ڈکٹیٹروں کا ساتھی ہے اور نہ ہی اسے اس کا کوئی خطرہ ہے کہ وہ جو کچھ کہنا چاہیے کہہ نہیں سکتا۔ اور وہ کوئی ایسا نہیں کہ اسے جلد ہی فراموش کردیا جائے ۔
آج وہ عجیب خیالوں میں کھویا ہواتھا ۔ کیا اسے ان سب باتوں کا مظاہرہ کرتا چاہیے۔ آخر یہ ایک مظاہرہ ہی تو ہوگا ۔ اگر وہ ایسانہیں کرے گا تو صاف ظاہر ہے وہ خود ایسا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا لیکن اگر وہ تقریر کرتا ہے تو اس کے بعد تو وہ عوام کے درمیان بالکل ایسا ہی ہوگا جیسا کہ کوئی مردہ شخص! ‘ شاید یہی نہیں بلکہ پھر تو خود اسے آپنے آپ کے بارے میں ‘ اپنے نظریات کے متعلق اور اپنے دوست احباب اور قریبی رشتے داروں وغیرہ سبھی کے بارے میں سوچنا اور خیال کرنا پڑے گا ۔ لیکن اس کا یہ خیال کیا ایک بے بنیاد پہلو نہیں تھا کہ اس کی کتابیں اندرون ملک بہت ہی کم پڑھی گئی ہیں تبھی تو اسے ابھی تک اپنی کتابیں شائع کرانے کی اجازت تھی ۔ جوکہ اس کے لیے ایک غنیمت سے کم نہیں تھا ۔ اب اہم ترین معاملہ بس یہی ایک تقریر تھی جو اسے حکومت کی جوبلی کے جشن کے موقع پر کرنی تھی اور یہ ایک دشوار گذار مرحلہ تھا ۔
اُسے یہ تقریر کرنی چاہیئے‘ ایسے کٹھن و دشوار مرحلے سے تو وہ پہلے کبھی دوچار نہیں ہواتھا ۔ لیکن اس جیسے لکھنے والے کے لیے یہ کوتی اتنا دشوار بھی نہیں ہوسکتا تھا آخر تقریر کا متن لکھنے میں تو اسے کوئی مشکل نہیں ہوگی ۔ اسے اپنی تقریر لکھ لینی چاہیئے۔ یہ خیال آتے ہی اُس نے کوشش کی کہ لکھے اور لکھنے کے دوران جیسا کہ وہ پہلے کرتا تھا اُس نے اصل مفہوم کو بین السطور رکھنے کی دانستہ کوشش بھی جاری رکھی ۔ اسے محسوس ہوا کہ تقریر کرنے کی بجائے اس کا لکھنا آسان ہے ۔ وہ لکھتا رہا ‘ لکھتا رہا ‘ یہاں تک کہ اسے یکدم ایک خیال نے چونکا دیا ۔ ’’ اگر انھوں نے مجھے تقریر کرنے سے پہلے مسودہ دکھانے کو کہا تو کیا ہوگا؟ وہ تو اسے ضبط کر لیں گے یاپھر اسے بدلنے اور تبدیلیاں کرنے پر زور دیں گے ۔ اب اس نے اپنی لکھی ہوئی تقریر والے کاغذ پھاڑ کر پرزہ پرزہ کر دیئے تھے ۔ میں صرف اہم نقاط لکھ کر لے جاؤں گا ۔ اور انھیں دکھانے کے لیے الگ سے دوسرے نقاط والا پرچہ تھما دوں گا ۔‘‘ اپنی اس سوچ پر وہ خود بھی حیران تھا۔ لیکن مطمئن بھی ۔ ’’ میں جب اپنے اصل نقاط کو سامنے رکھ کر تقریر کروں گا تو عوام الناس کو پتہ لگ جائے گا کہ میرے لیے میری ثابت قدمی کیا معنی رکھتی ہے اور میں کتنا با اصول ہوں یہ دنیا جان جائے گی ۔ پھر عوام ہی نہیں ڈکٹیٹر اس کے وزیر اور حواری بھی سنیں گے ۔‘‘ اس کی سوچ کا دھارا تیزی سے بہہ رہا تھا ۔
اب اُس نے اُن نقاط کو لکھنا شروع کیا جو اُسے کسی بھی صورت میں نہیں پڑھنے تھے ۔ اس نے سوچا کہ پہلے انھیں لکھ کر رکھ لوں تو بعد میں اپنی تقریر کے اصل نقاط قلم بند کر لوں گا ۔ اُس نے پہلے چند ایک مقدس آیات لکھیں اور پھر کچھ دو تین نقاط ان کی عمومی تشریح کے بارے میں ۔ اس کی یہ نہ کی جانے والی تقریر کے نقاط‘ ہاں ‘ ہاں ‘ بالکل ایسے ہی ‘ یا بالکل ویسے ہی ‘ نہیں ‘ نہیں ‘ بالکل نہیں کے سوا کچھ اور نہیں ہونے چاہئیں ۔ اس نے لکھتے ہوئے سوچا ۔
’’ جو کچھ وہاں باہر ہو رہاہے وہ دکھ دہ ہے ‘ وہ بکواس ہے ایک مسلسل اذیت ہے ‘ میں جو کچھ اپنے منہ سے تھوک رہا ہوں کیا تم سننے والے اسے سمجھتے ہو؟‘‘ وہ اپنی اصل تقریر کے لیے بھی نقاط قلم بندکر چکا تھا ۔
اسے وزارت عظمیٰ کے دفتر سے ڈکٹیٹر کے پریس سیکریٹری کا سرکاری خط موصول ہوا کہ وہ اپنی تقریر کا مسودہ جلد از جلد بھیجے ۔ یہ تو یقیناً نا ممکن تھا کہ وہ اپنی اصل تقریر کا مسودہ ارسال کرے ۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔ لہٰذا اُس نے اُن نقاط پر مشتمل تقریر کا وہ مسودہ ارسال کردیا جن نقاط پر اُس نے کچھ بھی نہیں کہناتھا ۔ اسے یقین تھا کہ اصل تقریر کا مسودہ تو ڈکٹیٹر ضبط کر لے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کے کچھ نتائج بھی اسے بھگتنے پڑیں ۔ دوسرے ہی دن اسے وزرات عظمیٰ کے دفتر سے خود ڈکٹیٹر کا دستخط شدہ خط موصول ہواکہ اُس کی تقریراس کی توقعات سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔
اس خط میں کی گئی اس کے لیے تعریف میں اسے اپنے لیے توہین کا پہلو محسوس ہوا لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی احساس ہوا کہ انھوں نے اس کی تقریر کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے ۔ اور اس میں توہین کی کوئی بات نہیں ۔ اب اُس نے وہی تقریر خود پڑھنی شروع کی تو بار بار اس کی ہنسی چھوٹنے لگی ۔ اُس نے اس تقریر کو باربار پڑھا اور بار بار ہنستا رہا ۔ اور اب تو وہ قہقہے لگا رہا تھا ’’ کیا لوگ واقعی خیالی اور خالی‘ حقیقت سے بعید باتوں کو ہی سننا چاہتے ہیں‘ اور وہ ایسی ہی باتیں کرنے والے کو سراہتے اور داد دیتے ہیں؟‘‘
اب اُس نے اپنی اصل تقریر کے نقاط سامنے رکھتے ہوئے اسے بھی پڑھا اور اپنے آپ میں بہت ہی خوش ہوا ۔ اُس نے اسے کئی بار پڑھا اورپھر خود ہی چونک پڑا کہ اس تقریر کا حکومت کی جوبلی تقریب میں کیا جا نا ‘ خطرے سے خالی نہیں ہوسکتا ۔ اب وہ اس کشمکش میں مبتلا تھا کہ کونسی تقریر کرے پہلے والی جس پر ڈکٹیٹر نے اسے خود سراہا اور دادوتحسین دی یا دوسری تقریر جس میں وہ نقاط شامل تھے جو وہ خودکہنا چاہتا تھا ۔
جوبلی کے جشن میں سٹیج کو قومی پرچم اور رنگ برنگی جھنڈیوںسے سجایا گیا تھا ۔ اورڈکٹیٹر اپنی کابینہ کے ارکان اور سبھی حواریوں کے جلو میں کرسئ صدارت پر براجمان تھا۔ سٹیج کے سامنے کرسیوں پر اعلیٰ فوجی عہدیدار اپنی بیگمات کیساتھ بیٹھے تھے اور فضا میں فوجی بینڈ کی ہلکی دھنوں کی آواز سنائی دے رہی تھی کہ ایسے میں اس نے سنا کہ سٹیج سے ایک بھاری بھرکم آواز اس کا نام پکار رہی تھی ۔ ’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ملک کے وہ عظیم لکھاری جنھیں پوری دنیا جانتی اور اُن پر فخر محسوس کرتی ہے اب آپ کے سامنے حکومت وقت کی ملک و ملت کی فلاح و بہبود . قومی یکجہتی اور استحکام کے لیے جدو جہد پر روشنی ڈالیں گے ۔ ‘‘ پورا مجمع تالیوں کی آوازسے گونج اٹھا ۔ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر جونہی مائیک کے قریب پہنچا ڈکٹیٹر کاپریس سیکریٹری تیزی سے آگے بڑھا ’’ آپ اپنی تقریر کا مسودہ تو ساتھ لائے ہیں نا؟‘‘ اس نے پوچھا ۔
’’ ہاں ! میرے پاس میری تقریر کا مسودہ موجود ہے اور یہ میرے دل پر رقم ہے!! ۔ ‘‘ اس نے جواب دیا اور آگے بڑھ کر مائیکروفون سنبھال لیا ۔ اسی ایک لمحے کا تووہ مدت سے منتظر تھا ۔
از : نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک
This entry was posted
on Saturday, December 26th, 2009 at 12:21 am and is filed under تازہ ترین.
You can follow any responses to this entry through the RSS 2.0 feed.
You can leave a response, or trackback from your own site.