قصہ گو
از نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔
قدیم زمانے کی بات ہے، پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ایک پرانا کہوہ خانہ تھا جہاں دنیا بھر کے سیاح اور دیگر غیر ملکی سوداگر و تاجر آتے اور آپس میں ایک دوسرے کی باتیں سنتے اور تجربات سے آگاہ ہوتے تھے ۔ایک دن ایک جہاں دیدہ، علم الادیان سے مالا مال ایک ایرانی مسافر وہاں آیا ۔
اس نے اپنی تب تک کی ساری عمر خدا کے متعلق کتابیں پڑھنے اور خود اسی موضوع پر کتابیں لکھنے میں صرف کر دی تھی ۔ اس نے خدا کے بارے میں اتنا سوچا اتنی جانکاری کی، اور یہاں تک پڑھا اور خود بھی لکھا کہ بالآخر وہ عقل و فراست ہی نہیں اپنی بذلہ سنجی بھی کھو بیٹھا اور ایک طرح کا مفلوج الخیال ہوگیا ۔ اور یوں وہ خدا کا بھی انکاری ہو گیا ۔شاہنشاہ نے اس کی جان بخشی تو کردی تھی لیکن یہی وہ وجوہات تھیں جن کی بنا پر اسے ملک بدر کردیا گیا تھا اور اب وہ، ایران سے چلتے چلتے، پشاور کے اس گمنام کہوہ خانے میں آن پہنچا تھا ۔
اب تک خدا کے وجود کو اپنی تبلیغ کی پہلی منزل بنانے والا یہ بد قسمت مبلغ خود بڑی الجھن میں مبتلا ہو گیا تھا ۔ وہ خود اس پر زور دینے لگا کہ اس نے اپنے افہام کی وجوہات کھو دی ہیں اور اب اسے معلوم ہوا ہے کہ اصل میں دنیا پر اختیار رکھنے والی کسی قوت کا کوئی وجود ہی نہیں ۔
اس آدمی کا ایک افریقی غلام تھا جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا تھا ۔ معرفت کا یہ عالم جب کہوہ خانہ میں داخل ہوا تو اس کا خادم دروازے کے قریب، دھوپ میں ایک پتھر پر باہر ہی بیٹھ گیا اور ان مکھیوں کو دور اڑانے لگا جو بھن بھن کرتیں اسے پریشان کر رہی تھیں ۔ عالم اب کہوہ خانہ میں ایک دیوان پر اپنی جگہ بنا چکا تھا اور دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا تھا ۔ اس نے اپنے لیے افیون کی چائے کی پیالی منگوائی ۔ جب وہ اسے پی چکا اور افیون نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تو اس کے دماغ نے بھی تیزی سے کام کرنا شروع کردیا ۔ اس نے کھلے دروازے سے باہر بیٹھے ہوئے اپنے خادم کو آواز دی۔ ‘‘ او، خبیث خادم، مجھے بتاؤ، کیا تم اعتقاد رکھتے ہو کہ کوئی خدا ہے یا نہیں؟‘‘۔
‘‘ کیوں نہیں، خادم نے بڑی عقیدت سے جواب دیا۔ ‘‘ بلکل ہے، لاریب ایسا تو ممکن ہی نہیں کہ خدا نہ ہو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے گھسے پھٹے کمر بند سے لکڑی کی ایک چھوٹی سے ‘‘ مورتی ‘‘ نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لی ۔ ‘‘ یہ دیکھے، میرے آقا!‘‘ اس نے مورتی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عالم کو متوجہ کیا ۔ یہ خدا ہے جس نے مجھے میرے جنم سے اب تک راہ دکھائی ہے ۔ ہمارے دیس میں ہر کوئی اس ‘‘ شجر ہجر ‘‘ کی عبادت کرتا ہے جس کی لکڑی سے یہ خدا بنایا گیا ہے ‘‘۔
عالم اور اس کے خادم کے درمیان اس گفتگو کو کہوہ خانہ میں بیٹھے دوسرے لوگ بڑی دلچسپی سے سنا ۔ وہ عالم کی جانب سے خادم کو کیے گئے سوال پر بہت حیران تھے ۔ اور اس سے کہیں زیادہ وہ خادم کے جواب پر حیران تھے ۔
اُن میں سے ایک جو برہمن تھا، وہ خادم کا جواب سن کر اُس سے مخاطب ہوا، ‘‘ کم بخت بیوقوف! کیا یہ ممکن ہے کہ خدا کو آدمی کمر بند میں بند رکھ کر ساتھ ساتھ لیے پھرے؟ خدا صرف ایک ہی ہے، برہما! اور وہ پوری دنیا، جسے اس نے خود بنایا ہے اُس سے بھی سے بڑا ہے ۔ برہما ہی قادر مطلق ہے اور اس کی عظمت کی نشانیاں اور گواہیاں گنگا کے کنارے، فلک بوس وہ مندر ہیں جہاں اس کے حقیقی پنڈت و پجاری اس کی پوجا کرتے ہیں ۔ اور صرف وہی ہیں جو سچے حقیقی خدا کو جانتے ہیں کوئی دوسرا نہیں ۔ لاکھوں ہزاروں سال گزر چکے ہیں اور ہزار ہا انقلاب در انقلاب آنے اور تبدیلیاں رونما ہونے کے باوجود یہ پنڈت یہ پجاری متحرک ہیں اور اپنا دبدبہ جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ، برھما، خدائے یکتا اُن کا محافظ ہے‘‘۔
برہمن اپنی بات ختم کرکے دوسروں کی جانب یوں دیکھ رہا تھا کہ وہ اس کی بات سے متاثر ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا لیکن، ایک یہودی تاجر جو ابھی تک اپنے مشروب کی چسکیاں لے رہا تھا اس نے برہمن کو متوجہ کیا اور بولا ، ‘‘حقیقی خدا کا مندر ہندوستان میں ہے ہی نہیں اور نہ ہی خدا، برہمن ذات کی حفاظت کرتا ہے۔ حقیقی خدا وہ نہیں جو برہمنوں کا ہے بلکہ اصل خدا تو ابراہیم کا خدا ہے، اسحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہے ۔ وہی سچا، اصل اور واحد خدا ہے جو حقیقی ہے ۔ یہ خدا کسی دوسرے کی بلکل کوئی حفاظت نہیں کرتا البتہ صرف ان کی جنھیں اس نے خود منتخب کر رکھا ہے یعنی، اسرائیلی!۔ دنیا کے معرض وجود میں آنے سے اب تک ہماری اسرائیلی قوم اس کی محبوب ہے اور یہ اعزاز صرف قوم اسرائیل ہی کو حاصل ہے ۔ اب اگر ہم دنیا بھر میں منتشر ہیں اور یوں در بدر بکھرے ہوئے ہیں تو یہ ایک سچائی ہے کیونکہ خدا ہمیں آزمانا چاہتا ہے ۔ اس نے ہم سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ایک دن وہ ضرور اپنے لوگوں کو یروشلم میں جمع کرے گا اور پھر عہد سلیمانی کے آثار بالکل اصل حقیقی صورت میں ان پر عیاں کرےگے اور اس شہر مقدس و متبرک کی عظمت و شان و شوکت بحال کر کے ہیکل سلیمانی کو پھردوبارہ وہی رتبہ و عظمت اور دبدبہ عطا کرے گا کہ اسرائیل دنیا پر حاکمرانی کرے گا‘‘۔
یہودی اپنی بات کہہ چکا تھا یا شاید کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا لیکن اب وہ زارو قطار رو رہا تھا کیونکہ اُدھر کونے میں بیٹھے ہوئے ایک اطالوی پادری نے اس کی بات کاٹ دی تھی ۔
‘‘ تم نے جو کچھ بھی کہا سب جھوٹ ہے‘‘۔ وہ بولا ۔ ‘‘ تم خدا پر نا انصافی کرنے کا الزام لگانے کے مرتکب ہو۔‘‘ اس نے یہودی کو گھورتے ہوئے کہا ۔ خدا تمھاری ہی قوم کو دوسروں پر فوقیت دیتے ہوئے صرف تمھی سے پیار نہیں کر سکتا اور بیشک یہ درست ہی کیوں نہ ہو کہ قدیم دور میں خدا تمھاری قوم کو پیار کرتا تھا اب بیسویں صدی ہے اور تمھاری قوم نے انیس ہزار سال پہلے اسے ناراض کردیا تھا ۔ اور اسے مجبور کردیا تھا کہ وہ تمہاری قوم کو تباہ و برباد کردے اور روئے زمین پر تم مارے مارے پھرتے رہو، تمہارے آبا و اجداد کے اعتقادات انہیں خدا کے غضب سے محفوظ نہ رکھ سکے اور وہ اپنی موت آپ مر گئے ہاں البتہ جو بچ گئے اور جن سے تمھاری نسل چل رہی ہے وہ ابھی ادھر اُدھر باقی ہیں، جیسے تم ہو ۔ خدا کسی ایک قوم کو کسی دوسری پر فوقیت نہیں دیتا ۔ لیکن جو محفوظ رہنا اور قائم رہنا چاہتے ہیں وہ انھیں روم کے کیتھولک گرجے کی راہ دکھاتا اور وہاں تک پہنچنے کے لیے انھیں اسباب مہیا کرتا ہے ۔ روم و ویٹیکن کی حدود سے باہر تو خدا کا تصور ہی گناہ ہے اورنہ ہی کوئی مکتی و رستگاری کوئی روحانی تسکین و آسودگی یا نجات حاصل ہو سکتی ہے‘‘۔
اطالوی کیتھولک جب جوش و جذبے سے بول رہا تھا تو اس سے آگاہ نہیں تھا کہ اس سے کچھ ہی پرے ایک پروٹیسٹنٹ پادری بھی بیٹھا اس کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پیچ و تاب کھا رہا تھا ۔ کیتھولک اپنی بات ختم کرکے فاتحانہ انداز میں ابھی ادھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ پروٹسٹنٹ بول پرا ۔ ‘‘ تم یہ کیسے دعویٰ کر سکتے ہو کہ مکتی و رستگاری اور نجات صرف تمہارے ہی مذہب سے ہیں؟ انجیل مقدس کے مطابق، صرف وہ محفوظ رہیں گے جو خدا کی عبادت و خدمت کریں گے اور خود خداوند خدا بھی تو یہی کہتا ہے کہ جو میری خدمت کرے گا میں اس کی اور اس روح کی حقیقی حفاظت کروں گا‘‘۔
اب ایک ترک النسل دروغہ شہر جو یہ باتیں سننے کے دوران اپنی چلم کے کش لگا رہا تھا، اس نے اچانک دونوں عیسائیوں کو غضنباک آنکھوں سے گھورا، چلم کا ایک لمبا کش لے کر دھواں ہوا میں بکھیرا اور ان سے مخاطب ہوا۔ ‘‘ تم دونوں کا مذہب بالکل بیکار، فضول اور بے معنی ہے۔ تمہارا مذہب تو چودہ سو سال پہلے ، جس سب سے سچے، کامل اور حیقیقی دین نے کچل کر رکھ دیا تھا وہ اسلام تھا ۔ تم یورپ کے ہو کر بھی اپنے سامنے رونما ہونے والے تغریات سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہو ۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ یہی سچا دین یورپ و ایشیاء اور افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور چین و روس میں بھی اس کی کرنیں روشنی بکھیر رہی ہیں ۔ تم دونوں یہ دعویٰ کرتے ہو کہ خدا نے یہودیوں کو مسترد کردیا ہوا ہے، یہ بالکل ٹھیک ہے ۔ تم نے خدا کے یہ الفاظ بھی دہرائے ہیں کہ یہودیوں کا دین پھیل نہیں سکتا اور یہودیوں کی ذلت و خواری اور در بدری خود خدا کی اپنی منشا تھی، یہ سب کچھ صیحح، لیکن اپنی بھی تو بات کرو، دین اسلام کی عظمت و شان و شوکت کو دیکھو، مشرق سے مغرب تک اس کا نور پھیلا ہوا ہے ۔ تمھیں اس سچائی کو تسلیم کرنا چاہیے، دنیا میں کوئی نہیں بچے گا، کوئی محفوظ ہی نہیں رہے گا ہاں صرف اسلام کے پروکار، دنیا میں انہی کی جے جے ہوگی ۔ خدا کے آخری پیغمبر کا نام ہوگا اور بس، اور اس کے بعد اس کے خلفاء کا اور یہی ہے جو تا قیامت قائم رہے گا‘‘۔
داروغہ کی بات سنتے ہی وہ ایرانی عالم جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا تھا، کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن عین اسی لمحے، کہوہ خانہ میں جمع مختلف ممالک سے آئے ہوئے، مختلف العقائد تاجروں اور سوداگروں کے درمیان مکالمہ بازی شروع ہو چکی تھی۔ ان میں کوئی عیسائی تھا تو کوئی پارسی کوئی تبت کا بد ھ مت تو کوئی مسلمان غرض سبھی ادیان کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے آپس میں، اپنے اپنے عقائد کے مطابق، خدا کی ذات اور اس کے وجود پر بحث کرنے لگے تھے ۔ ہر ایک زور دے رہا تھا کہ اس کے ملک میں جس خدا کی پرستش کی جاتی ہے وہی سچا و حقیقی خدا ہے ۔ ہر ایک بس یہی رٹ لگا رہا تھا کہ اسی کا خدا سچا ہے ۔ یہ شور و غل بڑھتا جا رہا تھا لیکن، ایک چینی جو، کنفوشس کا پیروکار تھا ، ایک کونے میں خاموش بیٹھا یہ سب کچھ سن اور دیکھ رہا تھا ۔ وہ بڑے آرام سے اپنی چائے کی چسکیاں لے رہا تھا اور محسوس یوں ہوتا تھا کہ اسے کہوہ خانہ میں برپا، سچے خدا کے دعویداروں کی اس بحث سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔
داروغہ نے اس چینی کو یوں چپ چاپ، کونے میں بیٹھے، چائے پیتے دیکھا تو اس نے اونچی آواز میں اسے مخاطب کیا، ‘‘ جو کچھ میں نے کہا ہے تم اس کی تصدیق کر سکتے ہو، تم ابھی تک خاموش بیٹھے ہو اور میں جانتا ہوں کہ تم جب بولو گے تو تم میرے کہے کی تائید کرو گے کیونکہ، تمھارے ملک کے جو تاجر و سوداگر یہاں آتے ہیں اور شہر میں اپنی تجارت کے لیے مجھ سے مدد لیتے ہیں وہ مجھے یہی بتاتے ہیں کہ اگرچہ چین میں بہت سے مذاہب پائے جاتے ہیں لیکن، تم چینی دین اسلام کو سب سے زیادہ بہتر سمجھتے ہو اور برضا و رغبت اسے قبول کر لیتے ہو، تم میرے الفاظ کی تائید کرو اور ہمیں سچے خدا اور اس کے پیغمبر کے بارے میں بتاؤ ‘‘۔
‘‘ہاں! ہاں!!‘‘، اب سبھی نے داروغہ کی طرح اس چینی سے کہنا شروع کردیا کہ وہ بتائے کہ اس موضوع پر کیا رائے رکھتا ہے۔
کنفوشس کے پیروکار چینی نے اپنی آنکھیں بند کیں اور چند لمحوں کے لیے لمبی سانسیں لیتے ہوئے کچھ سوچا ۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی لمبی آستینوں میں سے اپنے ہاتھ باہر نکالے اور انہیں اپنے سینے پر ایک دوسرے کے اوپر رکھا اور بڑے ٹھنڈے لہجے اور ہلکی آواز میں بولنا شروع کیا۔ ‘‘ میرے محترم بزرگواران!، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک حاکمانہ متکبرانہ پن ہے کہ لوگ اپنے اپنے خدا کو بہتر قرار دیتے ہیں اور ایک اعتقاد پر متفق نہیں ہوتے ۔ اگر آپ سننے کی زحمت گوارا کریں تو میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں جو اس مسئلے کو بیان کرتی ہے ۔
میں یہاں ہندوستان میں چین سے ایک برطانوی بحری جہاز کے ذریعے پہنچا جو پوری دینا کا چکر لگاتے ہوئے بحیرہ ہند کے کنارے لنگر انداز ہوا ۔ پھر میں وہاں سے کبھی پیدل تو کبھی چھکڑوں، یکوں اور کبھی کرائے کے ٹٹووں پر سفر کرتا یہاں تک آیا ہوں ۔ لیکن ہندوستان کے ساحل پر پہنچنے سے پہلے ہمارا جہاز انڈونیشیا کے جزیرے سماٹڑا کے ساحل پر رکا جہاں سے ہم نے تازہ پانی لیا ۔ یہ دوپہر کا وقت تھا ۔ ہم سے کچھ ساحل پر اتر گئے اور ناریل کے درختوں کے جھنڈوں کے سائے میں بیٹھ کر سستانے لگے، یہ ایک جزیرہ تھا اور یہاں سے مقامی لوگوں کی بستی کچھ زیادہ دور نہیں تھی۔ ہم مختلف اقوام کے لوگوں کی ایک جمعیت تھے ۔ ہم وہاں بیٹھے ہوئے خوش گپیاں کر رہے تھے کہ ایک اندھا وہاں آن پہنچا ۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہر وقت سورج کی جانب دیکھتا رہتا تھا اور پورا پورا دن، میدان میں کھڑا ہو کر ، پلکیں جھپکائے بغیر سورج پر آنکھیں جمائے رکھتا تھا ۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر سورج میں ہے کیا جو دنیا بھر کو منور کرتا ہے وہ اس کی روشنی کا راز پانا چاہتا تھا ۔ ہو سکتا ہے وہ اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہو لیکن اس کے بارے میں کوئی شواہد نہیں اور نہ ہی دوسرے لوگ ایسا سمجھتے ہیں ۔ بہرحال، وہ اپنے اس عمل میں ہر روز مصروف رہا لیکن اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ بھی نہ نکلنا کہ وہ اپنی آنکھوں سے محروم ہو گیا۔ سورج کی چمک نے اس کی آنکھوں کی بینائی چھین لی تھی اور وہ بلکل اندھا ہو گیا، تب اس نے اپنے آپ سے کہا، ‘‘ سورج کی روشنی کوئی مائع تو ہے نہیں ۔ اگر یہ مائع ہوتی تو اسے ایک صراحی سے دوسری صراحی میں انڈیلنا ممکن ہوتا اور پھر اسے جہاں کوئی چاہتا پانی کی طرح لیے پھرتا ۔ سورج آگ بھی نہیں، کیونکہ پھر پانی اسے بجھا سکتا تھا۔ اور یہ کوئی روح بھی نہیں کیونکہ اسے تو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ کوئی چمکیلا پتھر ہے، ورنہ اسے ادھر اُدھر گھمایا جا سکتا تھا ۔ لہٰذا سورج کی روشنی نہ مائع ہے، نہ آگ اور نہ ہی کوئی روح یا پتھر ہے ، یہ تو کچھ بھی نہیں ہے!‘‘۔ چینی لمحہ بھر کے لیے رکا اور اپنی بات پھر جاری رکھی ، ‘‘ ہاں تو میرے برزگو، جب وہ بلکل اندھا ہو گیا تو اس نےخود کو یہ کہہ کر تسلی دے لی اور مطمئن ہو گیا کہ سورج کا تو کوئی وجود ہی نہیں ۔ اب وہ ہر ایک سے یہی کہتا پھرتا تھا کہ، سورج کا تو کوئی وجود ہی نہیں ‘‘۔ اس اندھے کے ساتھ اس کا ایک خادم بھی تھا جس نے اپنے مالک کو ناریلوں کے جھنڈ کے سائے میں بٹھایا اور خود زمین پر گرے ہوئے ایک ناریل کو اٹھا لیا اور اس کے ریشوں سے ایک فیتہ بنا کر، ناریل میں سوراخ کیا اور اس کے اندر فیتے کو گھسا دیا ۔یہ فیتہ جب ناریل کے تیل کو جذب کر گیا تو یہ ایک ‘‘ چراغ ‘‘ بن گیا ۔ خادم جب یہ سب کچھ کر رہا تھاتو اس کے اندھے مالک نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور اس سے بولا، ‘‘ ہاں تو خادم!، کیا یہ درست نہیں جو میں نے تم سے کہا تھا کہ سورج کا کوئی وجود ہی نہیں؟ کیا تمھیں دکھائی نہیں دیتا کہ کتنا اندھیرا ہے؟ لیکن لوگ تو ابھی تک کہتے ہیں کہ سورج ہے ۔۔۔۔ لیکن اگر ہے تو پھر ایسا اندھیرا کیوں ہے، یہ سب کیا ہے؟
خادم نے مالک کی بات سنی تو بولا، ‘‘ میں نہیں جانتا کہ سورج کیا ہے، مجھے اس سے کوئی تعلق خاطر نہیں، لیکن میں جانتا ہوں کہ روشنی کیا ہے۔ میں نے ابھی ایک چراغ بنایا ہے جس کی مدد سے میں تمھاری جھونپڑی میں تمھاری چیزیں دیکھ سکتا اور یوں تمھاری مدد کر سکتا ہوں، یہ میرا سورج ہے‘‘۔ وہیں پرایک لنگڑا اپنی بیساکھیاں سنبھالے ایک طرف بیٹھا تھا اور اس نے جب یہ سب کچھ سنا تو قہقہے لگانے لگا ۔‘‘ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تم ساری عمر اندھے ہی رہے ہو۔‘‘ وہ اندھے سے مخاطب ہوا ۔ ‘‘ تمھیں تو معلوم ہی نہیں کہ سورج کیا ہے، میں تمھیں بتاتا ہوں کہ یہ کیا ہے، سورج آگ کا ایک گولہ ہے، جو ہر صبح سمندر سے نکلتا ہے اور پھر ہمارے جزیرے کے سبھی دریاؤں ، میدانوں اور کھیتوں کھلیانوں کے اوپر سے گزرتا ہوا پہاڑوں کے پیچھے چلا جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ ہم سبھی جزیرے والے خود دیکھ چکے ہیں اور اب بھی ہر روز دیکھتے ہیں اور اگر تمھاری آنکھیں ہوتیں تو تم خود بھی اس کا نظارہ کر سکتے تھے ‘‘۔
ایک مچھیرا جو ان تینوں کی باتیں سن رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنا جال بھی بن رہا تھا، وہ نہ رہ سکا اور انہیں متوجہ کرتے ہوئے بولا، ‘‘ یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ تم اپنے اس جزیرے سے کبھی باہر نہیں گئے۔ اگر تم معذور نہ ہوتے اور میری طرح سمندر میں مچھلیوں کے شکار پر جاتے تو تمھیں معلوم ہو جاتا کہ سورج ہمارے جزیرے کے پہاڑوں کے پیچھے نہیں جاتا بلکہ جیسے کہ وہ الصبح سمندر سے باہر نکلتا ہے وہ ہر شام سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا ہے ۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں ، میرا چشم دید مشاہدہ ہے اور بالکل سچ ہے ۔ کیونکہ میں سورج کے یوں الصبح سمندر سے باہر نکلنے اور پھر شام کو سمندر میں غوطہ لگا جانے کو ہر روز اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ‘‘۔
چینی نے لمحہ بھر کے لیے رک کر اپنی بات جاری رکھی۔‘‘ ہمارے ساتھ ایک ہندوستانی بھی تھا اور وہ بھی ان لوگوں کی باتیں سن رہا تھا۔ اس نے اچانک ان سب کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اس مچھیرے کو مخاطب کرتے ہوئے بولا، ‘‘ میں حیران ہوں کہ تم جیسا ایک معقول آدمی اتنی بے معنی بلکہ بات بلکہ بکواس کر سکتا ہے ۔ آگ کا ایک گولہ سمندر کے پانی میں گرے اور بجھ نے سکے، یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ سورج آگ کا گولہ ہرگز نہیں یہ تو، ‘‘ دیوا ‘‘ نام کا ایک اوتار ہے جو ایک رتھ میں سوار، میرو کے سنہری پہاڑ کے گرد تب سے چکر لگا رہا ہے جب سے یہ دنیا بنی ہے ۔ کبھی کبھی وہ مکار دغاباز اژدھے، راگو اور کیٹو ، دیوا پر حملہ کرکے اسے نگل لیتے ہیں اور تب زمین تاریک ہو جاتی ہے لیکن ہمارے پنڈت و پجاری دعا کرتے ہیں کہ دیوتا رہا ہو جائے اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے ۔ دیوتا آزاد ہو جاتا ہے ۔ صرف کوئی بےوقوف شخص جیسے کہ تم احمق ہو، اور کبھی اپنی جزیرے سے باہر ہی نہیں گئے ہو، ایسا سوچ سکتا ہے کہ سورج تمھارے ہی جزیرے پرچمکتا ہے ‘‘۔
اس ہندوستانی نے ابھی کچھ اور کہنا ہی چاہا تھا کہ ہمارے جہاز کا مالک جو کہ ایک مصری تھا، اور ہمارے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا، اس نے اچانک ہندوستانی کی بات کاٹ دی، ‘‘ نہیں ! نہیں !! تم سراسر غلط ہو، سورج کوئی دیوتا نہیں اور نہ ہی وہ صرف، ہندوستان اور اس کے سنہری پہاڑ کے گرد گھومتا ہے میں بحر اسود کے پانیوں میں دور دور تک اپنے جہاز پر سفر کر چکا ہوں اور بحر عرب کے ساحلوں کے ساتھ بھی میلوں میل، سمندر میں سفر کر چکا ہوں ۔ میں فلپائین اور مڈغاسکر بھی جا چکا ہوں ۔ سورج پورے کرہ ارض کو روشنی مہیا کرتا ہے صرف ہندوستان ہی کو نہیں ۔ یہ ایک ہی پہاڑ کے گرد چکر نہیں لگاتا ۔ یہ دور بہت دور کہیں مشرق سے طلوع ہوتا ہے ، جاپان کے کسی دور افتادہ جزیرے کے کونے سے، اور پھر کہیں دور مغرب میں جا غروب ہوتا ہے انگلستان کے جزیروں کے پیچھے ۔ یہی وجہ ہے جاپانی اپنے ملک کو ‘‘ نیپون‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں یعنی کہ‘‘سورج کی جنم بھومی‘‘، مین یہ سب کچھ جانتا ہوں کیونکہ میں نےملکوں ملکوں سفر کیا اور دنیا دیکھی ہے اور پھر میرے دادا نے بھی مجھے یہی کچھ بتایا ہوا ہے وہ بھی اپنی زندگی کے آخری دن تک سمندری سفر پر تھا ۔
یہ مصری ابھی کچھ اور کہنے ہی والا تھا کہ ایک انگریز جو ہمارے ہی قافلے میں شامل تھا بول پڑا ۔ ‘‘ دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے ہی نہیں سوائے انگلستان کے ، کہ جہاں کے لوگ سورج کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات رکھتے ہوں ۔ سورج وہیں ہوتا ہے جہاں ہم ہوتے ہیں اور وہیں پر غائب ہو جاتا ہے جہاں ہم ہوتے ہیں ۔ سورج ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرتا بے، بلکل ایسے جیسے یہاں ہے، اب ہم سبھی پوری دینا کا چکر لگا رہے ہیں اور سورج ہر صبح سے ہر شام تک ہمارے ساتھ ہے ۔ بلکل یوں جیسے اب میں یہاں آپ کے ساتھ ہوں اور دیکھ لو سورج بھی چمک رہا ہے ۔ ھے نا!‘‘۔ اب اس انگریز نے ایک چھڑی لی اور ریت پر ایک دائرہ کھینچا اور بتانے لگا کہ کس طرح سورج آسمانوں سے نکلتا اور دنیا کے گرد کیسے چکر لگاتا ہے ۔ لیکن وہ کچھ صاف طور پر وضاحت نہ کر سکا اور ہمارے جہاز کے کپتان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ یہ آدمی اس بارے میں مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور مجھ سے بہتر طور پر بتا سکتا ہے ‘‘۔
جہاز کا کپتان ایک بڑا عقلمند اور جہاندیدہ شخص تھا اور اب تک بڑی خاموشی کے ساتھ سب کی باتیں سن رہا تھا ۔جب انگریز نے اسے کچھ کہنے اور سورج کے بارے میں مزید کچھ بتانے کو کہا تو اس نے بیٹھے بیٹھے ایک جمائی لی اور بولا، ‘‘ تم سب ایک دوسرے کو غلط راہ دکھا رہے ہو اور خود بھی فریب کا شکار اور بہکاوے میں ہو ۔ سورج زمین کے گرد چکر نہیں لگاتا بلکہ یہ زمین ہے جو سورج کے گرد گھومتی ہے ۔ اور گھومنے کے دوران ہر چوبیس کھنٹوں میں ایکبار چاند کے عین سامنے آ جاتی ہے، نہ صرف جاپان، فلپائین اور سماٹرا میں جہاں ہم اب ہیں بلکہ، یورپ ، امریکہ اور باقی ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ سورج کسی کے لیے نہ پہاڑ پر چمکتا ہے نہ کسی جزیرے پر اور نہ ہی کسی کے لیے سمندر پر یہاں تک کہ وہ صر ف زمین کے لیے ہی نہیں چکمتا بلکہ دوسرے سیاروں کے لیے روشنی دیتا ہے اور یہ سب سورج کے گرد گھومتے ہیں ۔ تم نے عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری ، زحل، اور نیچون کا نام تو سنا ہوگا اور پلوٹو کا بھی اور زمین کو تو تم جانتے ہی ہو ۔ اگر تم اپنے اپنے پیروں تلے زمین کو دیکھنے کی بجائے آسمان کو دیکھو تو تمھیں سمجھنے میں شاید آسانی رہے اور تم جان جاؤ کہ سورج صرف تمھارے لیے یا تمھارے ہی ملک کے لیے نہیں چمکتا ۔‘‘
چینی نے جہاز کے کپنان سے منسوب یہ بات سناتے ہوئے، کہوہ خانہ میں اپنے ارد گرد بیٹھے تاجروں، سوداگروں ، سیاحوں اور ایرانی عالم پر ایک نگاہ ڈالی اور بولا، ‘‘ وہ کپتان جہاندیدہ اور بڑا ذہین تھا۔ لھٰذا دین و اعتقاد، کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ یہ گھمنڈ اور تکبر ہوتا ہے جو ہم سے غلطیاں کراتا اور ہم انسانوں سے ایک دوسرے کو مسترد کراتا ہے ۔ جیسا کہ خود سورج کے ساتھ ہے ویسا ہی کچھ ‘‘ خدا ‘‘ کے ساتھ بھی ہے ۔ ہر کوئی اپنے ہی خدا کو حقیقی و سچا اور افضل و اعلیٰ اور مطلق قرار دیتا ہے اور اسے اپنے ہی ملک کے لیے سمجھتا ہے اور ہر قوم اسے اپنے ہی معبدگھر، گرجے ، مسجد و مندر میں محسوس کرتی ہے اور اسے وہیں پر قائم و دائم دیکھنا چاہتی ہے لیکن دنیا ایسا نہیں کر سکتی ‘‘۔ چینی ایک لمحے کے لیے رکا اور ایک لمبی سانس لیتے ہوئے پھر بولا، ‘‘ کیا کوئی ایسا معبد گھر ہے جو خدا کے بنائے ہوئے اپنے اس معبد کا مقابلہ کر سکے جس کا مقصد انسانوں کو ایک ہی دین و اعتقاد پر متفق و متحد کرنا ہے؟‘‘۔
کنفوشس کے پیروکار چینی نے اپنی چائے کی ایک چسکی لی اور اپنی بات جاری رکھی۔ ‘‘ تمام عبادت گاہیں، گرجے معبد، مساجد مندر سبھی، خدا کے اپنے معبد کی طرز پر تعمیر ہیں، یہ خدا کی اپنی دنیا ہے۔ ہر معبد گھر کا اپنا ایک منبع ہے جس سے وہ دوسروں کی تسکین کرتا ہے، ہر معبد کے اپنے گنبد و مینار ہیں جو اس کی شان و شوکت کی گواہی دیتے ہیں ، ہر معبد، مسجد و مندر کے اپنے چراغ ہیں جو روشنی دیتے ہیں۔ ہر معبد ایک دوسرے کے لیے تحمل و درگزر کرنے اور قربانی دینے کا درس دیتا ہے اور اپنی اپنی کتاب قانون رکھتا ہے ۔ یہ سبھی ایک ہی منزل کی طرف لے جانے کے لیے ، خود کو مختلف راہیں قرار دیتے ہیں لیکن کیا ان معبد گھروں، مسجدوں، مندروں میں کوئی ایک بھی ایسا ہے جس کا منبع ، سمندر جیسا ہو اور جس کا گنبد آسمان سا ہو ؟ جس کے چراغ، سورج، چاند اور ستاروں جیسے ہوں اور جہاں مقدس فرشتے، یکساں یکسوئی سے حمدو نثا میں مشغول ہوں۔ اور جہاں خود خدا انسان کی بھلائی کے لیے متمنی ہو؟ کیا کوئی ایسی مقدس کتاب ہے جو قلب انسان پر یوں کھلی ہوئی ہو کہ ابہام کا شائبہ تک نہ ہو۔ کیا اس سے بڑی کوئی اور قربانی ہو سکتی ہے کہ مردوزن اپنی اپنی انا کو ایک دوسرے کے لیے قربان کردیں؟ اور جس دل میں خدا بستا ہے اس کے مقابلے میں کوئی اور دل ہو سکتا ہے جو قابل تعظیم ہو ‘‘۔
چینی اب بڑی سنجیدگی سے بول رہا تھا ۔‘‘ انسان کا تصور خدا جتنا بلند و بالا ہو تا ہے خدا اسے اتنا ہی زیادہ جانتا اور قریب وعزیز رکھتا ہے ۔ اور انسان جتنی خدا سے آشنائی چاہتا ہے اتنا ہی خدا خود اُس کے قریب آتا جاتا ہے اور اس کی خدائی محبت و کرم اور مہربانیوں اور نوازشوں کا مستحق ہو جاتا ہے‘‘۔
چینی کا لہجہ بڑا پر اعتماد تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ ملکوں ملکوں سے آئے ہوئے مختلف مذاہب و اعتقادات کے تاجروں سوداگروں کے درمیان بیٹھا ، دروغہ شہر کی موجودگی میں وہ جو کچھ کہہ رہا تھا اس سے بخوبی آگاہ تھا ‘‘ میں تو یہی کہوں گا کہ جو شخص یہ دیکھ سکتا ہے کہ سورج پورے کرہ ارض کو روشن کرتا ہے وہ نہ دوسروں کو کمتر ہونے کا کوئی الزام دے سکتا ہے اور نہ ہی وہ خود کو کسی دوسرے سے افضل سمجھ سکتا ہے اور جو صرف اپنے ہی معبد میں روشنی کی کوئی ایک شعاع کے ہونے پر بضد ہے اسے کسی ایسے دوسرے کو ذلیل و رسوا کرنے یا حقیر جاننے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے جو اس کی منطق کو نہ مانتا ہو بیشک ایسا کرنے والا کوئی اندھا ہی کیوں نہ ہوجو سورج کو بلکل دیکھ ہی نہ سکتا ہو۔‘‘
کنفوشس کے پیروکار چینی نے اپنی بات ختم کرکے چائے کی ایک چسکی لی اور اپنے سر کو جھکاتے ہوئے سب کو آداب بجا لایا، کہوہ خانہ میں موجود بر کوئی چپ ، سر جھکائے یوں بیٹھا تھاجیسے کسی گہری سوچ میں گم ہو اور کہوہ خانہ کی کھڑکیوں سے سورج کی روشنی کی کرنیں اندر آ کر اس ماحول کو روشن کر رہی تھیں جو حقے، چلم ، سگاروں اورسگریٹوں کے دھوئیں سے کالے بادلوں کی طرح کا ہو چکا تھا ۔
This entry was posted
on Saturday, January 2nd, 2010 at 12:00 am and is filed under تازہ ترین.
You can follow any responses to this entry through the RSS 2.0 feed.
You can leave a response, or trackback from your own site.