بِلاس و بِلاپ
وہ دونوں، سکول و کالج ہی کے زمانے سے دوست تھے اور یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران اُن کی دوستی مزید مضبوط ہو گئی تھی ۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے تحریک پکڑتے اور پھر ان دونوں نے پہلے منگنی کی اور پھر بعد میں آپس میں شادی کرلی، اب اُن میں ایک دوسرے کی مدد کرنے میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔
وہ اُس کی جانب سے ہمیشہ کسی بڑے مقصد کی تلاش میں لگے رہنے میں زیادہ ساتھ نہیں دے سکتی تھی، لیکن جب اچانک اُس نےایک نظریے کو عملی طور پر پیش کرنے کا سوچا اور اس کے امکانات کا جائزہ لیا تو، اُس نے اس کی خوب ہمت افزائی کی اور اُسے سب کچھ کرگزرنے اور اپنا مدعا پا لینے کے لیے متحرک کیا ۔
اُس نے تجویز پیش کی کہ اُن دونوں کو، اس کے متعلق مشترکہ ‘ مقالہ‘ لکھنا چاہیے ۔ اُس نے مقالے کا ابتدائیہ ایک تفصیلی مضمون کی صورت میں خود لکھا لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ مقالے کا وہ بڑا حصہ جو اس نے خود لکھا تھا، وہ بھی اُسی کے نام منسوب ہو ۔ وہ خوش تھا کہ چلو اس کے اتنے بڑے کام میں، اُس کا ایک چھوٹا سا حصہ بڑے کام کی شے ہے اور اسی بات کو دہرا دہرا کراُس نے، اسے مائل کر ہی لیا کہ وہ ‘مکالے‘ میں اپنے حصے پر اپنا نام لکھنے سے دست بردار ہوگئی ۔ اُس کے لیے یہ ایک بڑی فتح و کامیابی تھی جس پر وہ فخرومسرت کا اظہار چھپا نہیں سکتا تھا ۔
اب وہ ایک ‘ عظیم دانشمند و محقق‘ کا مرتبہ حاصل کر چکا تھا۔ ملک بھر کے اخبارات، ریڈیو و ٹیلی ویژن پر اس کے انٹرویوز، اس کی شہرت اور ‘ دریافت ‘ کو مزید چار چاند لگا رہے تھے ، لیکن اُس نے بھی اس بات کو چھپایا نہیں تھا کہ اس سب کچھ کے حاصل کرنے میں اُس کی بیوی نے بھی اس کی کچھ مدد کی تھی ۔
اب اُسے نا صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک سے بھی مدعو کیا جانے لگا کہ وہ آئے اور اپنی دریافت و نظریات کے بارے میں لوگوں کو بتلائے ۔ شروع میں تو وہ اس کے لمبےسفر اور کئی کئی دونوں تک گھر سے دور رہنے کو نظر انداز کرتی رہی لیکن اب اُن کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو پھر وہ چاہنے لگی کہ اب اُسے ایسے لمبے سفروں پر نہیں جانا چاہیے، وہ اس بات کو بھی اپنے اوپر چھا جانے سے نہیں روک سکتی تھی کہ وہ اپنی دریافت کے فارمولے کو مزید بہتر بنانے میں لگا رہے اور اسے مزید وسعت دے ۔ ادھر اب اُس نے بھی اپنے انٹرویوز وغیرہ میں اُس کا تذکرہ کرنا چھوڑ دیا ہوا تھا اور پھر اپنے ایک لمبے سفر سے وہ گھر واپس ہی نہیں لوٹا تھا ۔
اپنے شدید ترش و تلخ غصے میں اُس نے ‘ اس بڑی دریافت‘ میں اپنے کردار کے حوالے سے ایک اخبار کو ایک انٹرویو دینے پر آمادگی ظاہر کردی ۔ اگلے روز اخبار کی سرخی میں بڑے جلی الفاظ میں اُس کے کردار کو ‘ عظیم قربانی دینے کے مترادف‘ قرار دیتے ہوئے، اس کے عقل و شعور پر اسے داد سے نوازا گیا تھا ، لیکن اس سب کا نتیجہ ایک بڑے سکینڈل کی صورت میں اُٹھ کھڑا ہوا، تاہم کسی بھی سنجیدہ دانشور و محقق نے اسے کسی بھی لحاظ یا پہلو سے اہمیت دیے جانے کے قابل ہی نہ سمجھا کیونکہ اُس نے بذات خود نہ کسی ‘ نظریے کو پیش کیا تھا اور نہ ہی خود کچھ ‘ دریافت ‘ کیا تھا ۔ اُس کا ‘دانشمند، محقق ‘ خاوند اُس کے بارے میں بہت ہی محتاط رہا اور اپنے ‘ نظریے اور دریافت‘ کے سارے عمل کی کامیابی و کامرانی میں اُس کے حصے کا کہیں نا کہیں، کچھ نا کچھ ذکر کرنے لگا، بیشک یہ دبے لفظوں ہی میں ہوتا تھا لیکن اُس کی بیوی نے تو اُس کے لیے بظاہر ایک گڑھا کھود دیا تھا ۔
یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد، اب وہ ، اُس کی کامیاب و درخشاں زندگی میں صرف ایک، عام سی عورت بن کر رہ گئی تھی۔ یہی وہ کہانی ہےجو اُس عظیم دانشور و محقق کے بارے میں اب تک بار بار سنائی جاتی ہے ۔
کیا آپ کو اس پر اعتبار ہے ؟
نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔
This entry was posted
on Tuesday, December 1st, 2009 at 11:59 pm and is filed under تازہ ترین.
You can follow any responses to this entry through the RSS 2.0 feed.
You can leave a response, or trackback from your own site.