ڈنمارک سے تشریف لائے ہوئے معروف و ممتاز ادیب و صحافی اور براڈ کاسٹر جناب نصر ملک کے اعزاز میں ، اکادمی ادبیات پاکستان، سندھ کی جانب سے، ایک غیر معمولی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔
اکادمی ادبیات پاکستان، سندھ کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر جناب آغا نور محمد پٹھان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے نصر ملک کوسندھ کے ادیبوں کی جانب سے خوش آمدید کہا اور انھیں پاکستان اور اردو زبان کا سفیر قرار دیا ۔انہوں نے معزز مہمان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ، نصر ملک کا تعلق، پاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے ہے اور وہ پچھلے سنتیس سال سے کوپن ہیگن میں مقیم ہیں ۔ شاعری و افسانہ نگاری کے حوالے سے ان کی چھ کتابیں منظر عام پر آنے کے بعد شرف قبولیت حاصل کر چکی ہیں ۔ اس کے علاوہ نصر ملک پچھلے پچیس سال سے ڈینش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی اردو سروس میں بطور مدیر، سیاسی مبصر اور براڈ کاسٹر، خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ جبکہ وہ ڈینش سٹیٹ لائبریری میں، اردو زبان و ادب سے متعلقہ شعبے میں بطور لینگویچ کنسلٹینٹ بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں اور ڈنمارک میں تارکین وطن کے لیے، سٹیٹ لائبریری کی معلوماتی ویب سائٹ ٰ فنفو ڈاٹ ڈی کےٰ کے مدیر بھی ہیں ۔
اکادمی ادبیات پاکستان، سندھ کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر جناب آغا نور محمد پٹھان نے مزید کہا کہ تحقیق کے شعبے میں نصر ملک نے، ڈینش اردو لغت بنانے کے لیے بڑا کام کیا ہے اور اپنی نوعیت کی یہ پہلی ڈینش اردو لغت عنقریب ہی منظر عام پر آنے والی ہے ۔ اور امید کی جا سکتی ہے کہ اس لغت کے حوالے سے ڈینش اور اردو زبان کے علاوہ دونوں ملکوں کے لوگوں اور دو مختلف تہذیبوں کو نزدیک آ کر ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے گا ۔ نصر ملک نے ڈینش ادب ٰکے اردو تراجم بھی کیے ہیں اور ان کی ترجمہ کردہ ڈینش اساطیر کے موضوع پر ایک کتاب ٰ دیوتاؤن کا زوالٰ ایک بے مثال ادبی کارنامہ ہے ۔
جناب آغا نور محمد پٹھان نے مزید کہا کہ نصر ملک نہ صرف اردو بلکہ پنجابی، سندھی و پشتو ادب پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں بلکہ وہ عالمی ادب اور عالمی ادبی اداروں سے بھی جڑے ہوئے ہیں اور یوں انھیں عالمی اور اردو عصری ادب سے واقفیت حاصل رہتی ہے ۔ جو ان کی اردو زبان و ادب کے فروغ اور احیا کے لیے کوششوں کو تازہ مواد میہاکرنے میں معاونت عطا کرتی ہے ۔
ڈنمارک سے آئے ہوئے اردو کے سفیر، نصر ملک کے اعزاز میں منقعد کی گئی اکادمی ادبیات پاکستان، سندھ کی اس منفرد تقریب کے مہمان ، خصوصی، پاکستان رائیٹز گلڈ سندھ کے سیکریٹری جنرل جناب احمد عمر شریف نے بھی، نصر ملک کی علمی و ادبی خدمات و کوششوں کو سراہا اور ان کی جانب سے ڈینش ادب کو اردو میں ترجمہ کرکے دو تہذیبووں کے درمیان ٰ رابطے کے پلٰ کا معمار قراد دیا ۔ جناب احمد عمر شریف نے کہا کہ نصر ملک ایسی ہشت پہلو شخشیت ہیں جو اردو ادب کے لیے دیار غیر میں ہمارا ایک بہت بڑا سرمایہ ہیں ۔ احمد عمر شریف نے پاکستان رائیٹز گلڈ سندھ کے ایما پر، اکادمی ادبیات پاکستان ( سندھ) کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر آغا نور محمد پٹھان کو سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان جیسے قومی ادارے کو ، بیرون ملک اردو زبان و ادب کی آبیاری کرنے والے، نصر ملک جیسے احباب کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اعزاز سے نوازا جانا چاہیے ۔
پاکستان رائیٹرز گلڈ کے خازن، معروف افسانہ و ڈرامہ نگار جناب اقبال نظر نے نصر ملک کی شخصیت اورفن پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ انھوں نے کہا کہ نصر ملک کی تخلیقات تو وہ پڑھتے ہی رہے ہیں لیکن ان سے ملاقات کو محض بیس بائیس دن ہی ہوئے ہیں مگر وہ نصر ملک کو اپنے چالیس سال کے دوستوں میں شامل کرکے خوشی محسوس کررہے ہیں اور ھماری دونوں کی اب تک کی ملاقاتوں میں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجھے اپنے ادبی سفر میں ایک اور ھمسفر مل گیا ہے ۔ اقبال نظر نے، نصر ملک کی ادبی خدمات کو زبردست سراہا ۔ معروف شاعر انور کیف نے، ڈنمارک میں اردو کے فروغ کے سلسلے میں نصر ملک کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ڈنمارک سے اردو کا سب سے پہلا اخبار، صدائے پاکستان، جو در اصل اسکینڈینیویا کا پہلا اردو اخبار تھا، سنہ انیس سو بھہتر میں نصر ملک ہی نے جاری کیا تھا۔ انہوں نے نصر ملک کی کراچی آمد کو اردو ادبی برادری کے لیے اہم قرار دیا ۔
پاکستان رائیٹرز گلڈ، سندھ کی مجلس عاملہ کے رکن، اور معروف ادیب و نقاد، ناصر شمسی نے، ڈینش ادب اور اردو زبان و ادب کے ضمن میں، نصر ملک کی دلچسپی اوروژن پر اظہار خیال کرتے ہوئے، ڈنمارک میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی غیر معمولی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا ۔
اپنے اعزاز میں منعقد ہوئی، پاکستان رائیٹرز گلڈ، سندھ کی اس پر وقار تقریب میں ، نصر ملک نے ڈنمارک میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے ایک پر معنی اور جامع تقریر کی ۔ انہوں نے ڈنمارک اور متحدہ ہندوستان کے تعلقات کے متعلق، ان تاریخی حوالہ جات کا ذکر کیا جن سے بر صغیر کی نئی پود اور خاص کر پاکستان کی نئی پود تو کیا بیشتر محققین بھی آشنائی نہیں رکھتے ہوں گے ۔
نصر ملک نے بتایا کہ ڈنمارک کےلوگ، سنہ سولہ سو بیس میں بندوستان پہنچ چکے تھے اور تب ڈنمارک کے بادشاہ کرسچین چہارم نے اپنے دو خصوصی ایلچیوں کو متحدہ ہندوستان کے علاقے ٹرانکیبار کے راجہ رگھوناتھ نائیک کے پاس بھیجا جہاں انھوں نے راجہ کے ساتھ اس کے علاقے میں اپنی تجارتی منڈی قائم کرنے کا معاہدہ کیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس ڈینش تجارتی منڈی کا دائرہ “ سیرام پور “ تک پھیل گیا ۔ اس علاقے پر ڈینش ایسٹ انڈیا کمپنی سنہ سترہ سو پچپن میں اپنے قدم پہلے ہی جما چکی تھی ۔ متحدہ ہندوستان کے اس علاقے پر ڈینش استعماریت ، ایک سو پینتیس سال تک برقرار رہی جس کے دوران، ڈینش مفادات کے تحفظ کے لیے، وقفے وقفے سے سولہ گورنر اور بیشمار پادری وہاں مقرر کئے گیے ۔ ان گورنروں اور پادریوں نے اپنے روزنامچوں ( ڈائریوں ) اور یادداشتوں کی صورت میں ڈینش علم و ادب کے خزانوں کو ہندوستانی علم و ادب، فلسفہ ، ادیان اور رسوم و اقدار کے موتیوں سے بھر دیا ۔ان روزنامچوں اور یادداشتوں کو ، ڈنمارک میں در آنے والے “ ابتدائی ہندوستانی ادب “ کے طور پر تسلیم کیا جاتا بے اور تین سو سال پہلے کے ان قلمی نسخوں کو اب جدید تکنیک کے ذریعے کتابوں کی صورت میں شایع کرکے دانش گاہوں اور کتب خانوں کو رفاع عامہ کے لیے مہیا کردیا گیا ہے ۔
نصر ملک نے بتایا کہ ڈنمارک سے ایک چھاپہ خانہ متحدہ ہندوستان کے علاقے ٹرانکیبار میں سیرام پور میں لگایا گیا تھا اور اس میں جو پہلی کتاب شائع ہوئی وہ “ تامل، ڈچ ڈکشنری “ تھی ۔ جو آج بھی ڈنمارک کے شاہی کتب خانے میں موجود ہے ۔
قدیم و جدید، ہندوستانی و پاکستان ادبا و شعراء کا حوالہ دیتے ہوئے نصر ملک نے بتایا کہ، اب تک اردو و فارسی کے ہندوستانی انسل قدیم و جدید جن شعرا و ادیبوں کا کلام ڈینش زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے اُن میں ، آخری تاجدار ہند، بہادر شاہ ظفر، سید محمدی میر سوز، اشک، دلہن بیگن ۔ امیر مینائی، اسد اللہ خان غالب، محمد اقبال ( علامہ)، سید محمد بخش حیدری، کبیر ، کالیداس، کمال الدین ، حیسن شاہ ، مومن، غلام ھمٰدانی ، مصحفی، میر حسن ، میر انشائ اللہ خان ، میر تقی میر، عبدالل یحیٰ خان آصف ، فیض احمد، فیض، احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز کے علاوہ کئی دوسرے شعرا و ادیب بھی شامل ہیں ۔
نصر ملک نے بتایا کہ امیر خصرو، بابا گرونانک، بھلے شاہ اور وارث شاہ کے منتخب کلام کے تراجم بھی ڈینش زبان میں ہو چکے ہیں جب کہ پشتو زبان کے عظیم شاعر، رحمان بابا اور سندھی زبان کے عظیم صوفی شاعر، شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کی شاعری کے تراجم بھی ڈینش زبان میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ ہندوستان و پاکستان کی کئی ایک علاقائی زبانوں کاادب، ڈینش زبان میں موجود ہے ۔
ڈنمارک میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے نصر ملک نے کہا کہ ڈنمارک میں سکولوں میں پاکستانی بچوں کے لیے اردو کی تعلیم کا باقاعدہ بندوبست ہے اور اس کے لیے کتابیں محکمہ سکول ہی مہیا کرتا ہے جو مفت ہوتی ہیں ۔ ڈینش مقامی و ضلعی بلدیاتی لایبریوں میں اردو، پنجابی، پشتو اور سندھی زبان کی کتابیں، موسیقی اور ویڈیو فلمیں بھی موجود ہیں ۔ ڈنمارک میں اسٹیٹ لائیبریری جو ان کتابوں کے فراہم کرنے اور انہیں مقامی لائیبریوں تک پہنچانے کی ذمہ دار ہے اس میں اردو، پشتو، پنجابی اور ہندی کتابوں کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان و ہندوستان سے شائع ہونے والے متعدد اردو اخبارات و جرائد بھی یہاں باقاعدگی سے مہیا کیے جاتے ہیں ۔ڈنمارک میں پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے پانچ “ ایف ایم ریڈیو اور ایک ٹی وی چینل بھی ہے جو اردو ، پنجابی و ہندی پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ قومی ڈینش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ( ڈنمارک ریڈیو) اردو زبان میں روزانہ اپنی آفیشل ویب سائٹ پر اردو کی خبریں پیش کرتا ہے ۔ ۔ ڈنمارک سے گاہنے بگاہے شائع ہونے والے اردو کے متعدد جریدوں کا ذکر کرتے ہوئے، نصر ملک نے بتایا کہ اب صرف ، ماہنامہ وقار، ماہنامہ ساحل اور وطن نیوز باقاعدگی سے شائع ہورہے ہیں۔ ایک دو پاکستانی و بندوستانی اردو شاعروں کی کتابیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ جب کہ خود انہوں نے کئی ڈینش شعرا و ادیب کی تخلیقات کو اردو میں ترجمہ کیا ہے اور خود ان کی اپنی کئی ایک اردو تخلیقات کے ڈینش تراجم بھی ہو چکے ہیں اور انہوں نے چند ایک اردو لکھاریوں کی تخلیقات کا ڈینش زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے ۔
نصر ملک نے بتایا کہ ان کے بھائی اسد ملک نے ابھی حال ہی میں عصر حاضر کے معروف ادیب، سٹی ڈیلیئر کے دو ڈینش ناولوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اور یہ دونوں ناول، “ نیلاہٹ میں سفر “ اور “ جولائی کے دو دن “ کے نام سے، گوجرانوالہ سے ایم پبلیکیشنز نے بڑے اہتمام سے شائع کیے ہیں، اورڈینش ادب کے اردو میں تراجم کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔
نصر ملک نے کہا کہ ڈنمارک میں پاکستانیوں کی نئی پود بھی اردو سے کافی دلچسپی رکھتی ہے اور پنجابی گھرانوں کی روزمرہ کی زبان بھی اب بہت حد تک، اردو ہی ہے ہر چند کہ اس پر پنجابی اور ڈینش زبان و ماحول کے اثرات بھی پائے جاتے ہیں جو کہ ایک قدرتی امر ہے ۔
تقریب کے آخر میں، ا کادمی ادیبات پاکستان ( سندھ) کے ڈائریکٹر آغا غلام نبی پٹھان نے، اکادمی کی دعوت قبول کرنے اور وہاں آکر ڈنمارک اور اسکینڈینیویا میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے خطاب کرنے پر، نصر ملک کا شکریہ ادا کیا اور اس سلسلے میں نصر ملک کے کلیدی خطاب کو لائق تحسین قرار دیا ۔ اس موقع پر نصر ملک کو، اکادمی ادبیات پاکستان ( سندھ) کی جانب سے “ اجرک “ اور پھولوں کا گلدستہ پیش کیا گیا ۔ گجراتی ادبی سنگت، اور پنجابی کے شعرا و ادیبوں کی انجمن کی جانب سے بھی نصر ملک کو پھولوں کے گلدستے پیش کئے گئے جبکہ، کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ڈائریکٹر، سید ادیب حسین کی جانب سے ان کی تحریر کردہ کتاب “ کراچی اور اس کی بندرگاہ کی تاریخ“ بھی انھیں پیش کی گئی ۔
نصر ملک کے اعزاز میں اکادمی ادبیات پاکستان ( سندھ) کی اس تقریب میں نظامت کے فرائض معروف شاعر و ادیب محمد حنیف نے سر انجام دیئے ۔ اور فاطمہ زیدی نے نعت رسول (صعلم ) پیش کی ۔
رپورٹ ؛ ناصر شمسی ۔ کراچی
This entry was posted
on Sunday, December 13th, 2009 at 2:17 am and is filed under تازہ ترین.
You can follow any responses to this entry through the RSS 2.0 feed.
You can leave a response, or trackback from your own site.