کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو

کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو
________________________
امشب ہوا میں تازہ کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو پھیلی ہے
پیڑوں کی شاخوں پر سیب لٹک رہے ہیں
پرندے اپنے گھونسلوں میں واپس جا چکے ہیں
موسم گرما، توقعات و یادداشتوں کے درمیاں،
اِک راہ گم کردہ احساس ۔
موسم گرما تو پتنگوں کے لیے ہے
اُن کی سچائی کے لمحے اندھیرے کے بعد آشکار ہوتے ہیں
تب وہ اڑتے ہوئے ہماری کھڑکی کے شیشے سے چمٹ جاتے ہیں
اور انتظار کرتے ہیں کہ کب، موقع پائیں اور
ہماری شمع کی کرنیں کاٹ کے رکھ دیں
اس سمے وہ اپنی یادداشتیں بھول جاتے ہیں کہ
اُن کے پشتوں کے ساتھ کیا ہوا تھا، وہ تو بس
توقعات لیے، انجام سے بے خبر، دیوانہ وار
کھڑکی کے شیشے سے سر ٹکراتے رہتے ہیں،
شمع جلتی رہتی ہے، پگلتی رہتی ہے اور پھر
آنسوؤں میں ڈوب جاتی ہے ،
کھڑکی کے باہر پتنگوں کی لاشیں پڑی رہ جاتی ہیں،
کل صبح انہیں مکھیاں کھا جائیں گی
سورج، شمع کو نگل چکا ہوگا
کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو اُڑ چکی ہوگی ۔
( نصر ملک ۔ کوپن ہیگن) ۔

Leave a Reply

You must be logged in to post a comment.