کل جو گذر گیا، اس کا غم کیا
کل تو کل تھا، سو گذر گیا،
کل کی غلطی، یا برائی
اُس پر اب افسوس کیسا
ہمارا کل تو اب ہمیشہ کے لیے
ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے
ہم اسے اب کبھی واپس نہیں لا سکتے
ہم اپنے کل کے لکھے حرفوں کو نہیں مٹا سکتے
اب ہاتھ ملنے سے کیا فائدہ، ہاں البتہ
ہمیں اپنے آنے والے کل سے محتاظ رہنا چاہیئے
یہ ہمارے ’’آج‘‘ کو نگل نہ لے
ہمیں ’’ آج‘‘ محتاط رہنا ہوگا،
ہمیں کل کی اپنی غلطیوں کو دھرانا نہیں چاہیئے
ورنہ ہم آج ہی نہیں کل بھی پچھتائیں گے
کل جو آنے والا ہے
آئیں ہم اپنے ’’ آج ‘‘ کو پُر مسرت بنائیں
آنے والے اور گذرے ہوئے کل کی فکر چھوڑیں
اپنے ’’ آج ‘‘ کا دامن خوشیوں سے بھر لیں
آنے والے اور گذرے ہوئے کل کا آزالہ
خود بخود ہو جائے گا ۔
( نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ) ۔