Archive for May, 2011

محبت اور وقت

Monday, May 23rd, 2011

محبت اور وقت
از :  نصر ملک

قدیم زمانے کی بات ہے، ایک بہت ہی خوبصورت چھوٹے سے جزیرے پر سبھی  ’’  احساسات و جذبات ‘‘ ،  خوشی ، غمی، دانش  اور بہت سے دوسرے جن میں محبت بھی شامل تھی ، ایک ساتھ اکٹھے رہتے تھے ۔ ایک دن ان سب کو بتایا گیا کہ جزیرہ ڈوبنے والا ہے لہٰذا وہ اپنے  بچاؤ کے لیے کشتیاں تیار کر لیں ۔ اُن سب نے ایسا ہی کیا اور پھر اپنی اپنی کشتی پر سوار ہو کر جزیرہ چھوڑگئے، لیکن محبت نے نہ کشتی بنائی اور نہ ہی جزیرے کو چھوڑا ۔
اب جزیرے پر صرف محبت ہی تھی جو رہ گئی تھی اور وہ جہاں تک ممکن تھا، آخری لمحے تک وہیں رہنا چاہتی تھی ۔
جب جزیرہ کم و بیش ڈوب گیا تو محبت نے مدد کے لیے پکارا ۔
عین اُسی لمحے ’’ امارت ‘‘ قریب ہی سے اپنی بڑی کشتی میں سوار گزر رہی تھی ۔
محبت نے اُسے دیکھا تو زور سے آواز دی، ’’ امارت بہن کیا تم مجھے اپنے ساتھ لے چلو گی؟ ‘‘۔
’’ نہیں، میں تمھیں اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتی ۔ میری کشتی میں بیشمار سونا ، چاندی  اور جواہرات لدے ہوئے ہیں ۔ یہاں تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں‘‘۔  امارت نے کہا ۔
محبت نے ’’ تکبر ‘‘ سے پوچھا،  ’’ تکبر بھائی میری مدد کرو، مجھے اپنے ساتھ لے چلو‘‘۔
’’ نہیں میں تمھاری مدد نہیں کرسکتا‘‘۔ تکبر اپنی خوبصورت کشتی کو آگے بڑھاتا ہوا بولا ۔  ’’ تم پوری طرح بھیگی ہوئی ہو اور میری کشتی کو نقصان پہنچا سکتی ہو‘‘۔
اپنی کشتی میں سوار ’’ خوشی ‘‘ جونہی محبت کے قریب سے گزری اُس نے اُس سے بھی وہی سوال کیا لیکن،  خوشی اپنے آپ میں یوں خوش تھی کہ اُس نے محبت کی آواز ہی نہ سنی ۔
محبت نے  قریب سے کشتی میں گزرتی ہوئی ’’ اُداسی ‘‘  سے کہا کہ وہ  اُسے اپنے ساتھ اپنی کشتی میں سوار کرلے ۔
’’اوہ، پیاری محبت! میں ایسا نہیں کر سکتی، میں خود اتنی اداس ہوں کہ میں اپنے آ پ ہی میں رہنا چاہتی ہوں‘‘۔
پھر اچانک وہاں ایک آواز آئی ، ’’ محبت آؤ ! ادھر آؤ ، میں تمھیں اپنے ساتھ  لے چلتی ہوں ‘‘۔  یہ ایک بوڑھی آواز تھی ۔ محبت کی جان میں جان آئی اور وہ خوشی میں یہ جاننا بھی بھول گئی کہ وہ کس کی آواز تھی اور وہ اُسے کہاں لے جا رہی تھی ۔ جب وہ  خشک زمین پر پہنچیں تو  بوڑھی نے اپنی راہ لی اور اچانک غائب ہو گئی ۔ محبت سوچتی ہی رہ گئی کہ وہ بوڑھی کا شکریہ کیسے ادا کرے ۔
محبت نے ایک اور بوڑھی  ’’ دانش ‘‘  سے پوچھا کہ اگر وہ جانتی ہو کہ کہ اُس کی مدد کس نے کی تھی؟
’’ یہ ’’ وقت ‘‘ تھا ‘‘ ، دانش نے جواب دیا ۔
’’ وقت؟‘‘ ، محبت نےحیرانی سے پوچھا ۔ ’’ لیکن وقت نے میری مدد کیوں کی ؟ ‘‘۔
دانش نے مسکراتے ہوئے ایک گہری حکیمانہ سانس لی اور بولی، ’’ کیونکہ یہ صرف وقت ہی ہے جو سمجھ سکتا ہے کہ ’’ محبت ‘‘  کتنی قیمتی ہے‘‘ ۔

قارئین کرام! کہا آپ بھی ’’وقت ‘‘  سے متفق ہیں کہ ’’محبت ‘‘ سے بڑھ کر کوئی اور قیمتی شے ہو ہی نہیں سکتی؟

 

 

 

طوفان میں گھرا عقاب

Sunday, May 22nd, 2011

طوفان میں گھرا عقاب
از نصر ملک

کیا آپ جانتے ہیں کہ  عقاب کسی طوفان کی آمد سے بہت پہلے ہی آگاہ ہوجاتا ہے؟
طوفان کی آمد سے پہلے ہی عقاب بلندی پر پرواز کر تے ہوئے، طوفانی ہوا کے آنے کا انتظار کرتا ہے اور جب طوفان اُمڈ آتا ہے تو عقاب اپنے پنکھ کچھ یوں پھیلا دیتا ہے کہ ہوائیں اُسے نیچے سے اُوپر اٹھا کر ، طوفان سے بہت اوپر لے جاتی ہیں تب طوفان اُس کے نیچے سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اور عقاب اُس کے اوپر  بلند پرواز کرتے ہوئے ’’ اوج ‘‘ پر پہنچ چکا ہوتا ہے ۔
عقاب طوفان کی آمد کو روک نہیں سکتا اور نہ ہی اِس سے بچ سکتا ہے لیکن وہ طوفان کو یوں استعمال کرتا ہے کہ وہ اُسے ’’اوج‘‘ پر پہنچا دیتا ہے  اور وہ اُن ہواؤں کے اُوپر محو پرواز رہتا ہے جو طوفان لاتی ہیں ۔
زندگی کا طوفان جب ہمیں آن گھیرتا ہے تو ہم عقاب کے اس اصول کو آزما اور اپنا سکتے ہیں ۔ ہم  اپنے اعتقاد و یقین  اور ذہن کو مضبوط و پختہ بنا کر ان طوفانی ہواؤں اور طوفان پر حاوی ہو سکتے ہیں اور اِن سے اوپر ، پرواز سکتے ہیں ۔ خود کو طوفانی جھکڑوں سے نکال کر ’’ عروج‘‘ پر جانے  کے لیے، ہم قدرتی قوتوں کو ، جو خود ہمارے ہی اندر ہوتی ہیں،  بروئے کار لا سکتے ہیں ۔
ہم اپنی قوت ایمانی سے،  طوفانوں کی اُن بلاؤں پر قابو پا سکتے ہیں جو ہماری زندگیوں میں بیماریاں، سانحے، ناکامیاں اور مایوسیاں لاتی ہیں۔ ہم طوفانوں سے بالا،  ’’ اوج ‘‘ پر پہنچ سکتے ہیں ۔
یہ زندگی کا بوجھ نہیں ہوتا جو ہمیں نیچے دبا دیتا ہے  بلکہ یہ تو وہ طریقہ ہوتا ہے جو ہم اس بوجھ کو اتارنے کے لیے اپناتے ہیں ۔

 تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

 

صدائے باز گشت

Sunday, May 22nd, 2011

صدائے باز گشت

از : نصر ملک

ایک درویش اور اُس کا چیلا، پہاڑوں میں کہیں سفر کر رہے تھے ۔
اچانک چیلے کا پاؤں پھسلا اور وہ گر گیا ۔ اس طرح اُسے ایک سخت چوٹ لگی اور درد سے اُس کی چیخ نکل گئی ۔
وہ اپنی درد کی شدت تو بھول گیا لیکن حیران تھا کہ اُسے اُسی طرح کی چیخ دوسری جانب سے، کہاں سے سنائی دی ۔
اب وہ شوق میں چلایا،  ’’ تم کون ہو؟‘‘
جواب میں اُسے بھی یہی سنائی دیا،  ’’ تم کون ہو؟‘ُ
وہ پھر پہاڑ کی طرف منہ کرکے چلایا،  ’’ میں تمھاری تعریف کرتا ہوں!‘‘
دوسری طرف سے بھی ہو بہو وہی صدا سنائی دی،  ’’ میں تمھاری تعریف کرتا ہوں!‘‘
اس جواب پر وہ سخت غصے میں چلایا،  ’’ ڈرپوک سامنے تو آ! ‘‘
اب دوسری جانب سے بھی یہی آواز سنائی دی، ’’ ڈرپوک سامنے تو آ! ‘‘
اب چیلے کے صبر کا پیمانہ بھر چکا تھا، اُس نے اپنے گرو درویش کی جانب دیکھا اور پوچھا ، ’’ گرو یہ سب کچھ کیا ہے؟‘‘
درویش مسکرایا اور بولا،  ’’ میرے بیٹے، میرے چیلے، دھیان دو ‘‘۔
اب چیلے نے ایک زوردار آواز لگائی ،  ’’ تم اعلیٰ ترین ہو!‘‘۔
دوسری جانب سے بھی یہی جواب ملا،  ’’ تم اعلیٰ ترین ہو! ‘‘۔
اب چیلے کی پریشانی مزید بڑھ گئی تھی اور اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہے اور ایسا کیوں ہے کہ جو کچھ وہ خود کہتا ہے دوسری جانب سے اُسے وہی بات جواب میں ، ہو بہو دہرا دی جاتی ہے ۔ چیلا اس معاملے کو سلجھا نہ سکنے پر بہت پریشان اور رنجیدہ تھا ۔
درویش نے چیلے کی یہ حالت دیکھی تو بولا،  ’’ یہ صدائے بازگشت ہے،  لوگ اِسے گونج بھی کہتے ہیں، یہ تمھیں ہر وہ شے ہو بہو واپس لوٹا دیتی ہے جو تم کہتے یا کرتے ہو۔ ہماری زندگی ہمارے اعمال کا  ’’ پر تُو ‘‘ ہے ۔ اگر تم دنیا میں زیادہ محبت چاہتے ہو تو  اپنے دل میں زیادہ محبت پیدا کرو۔  اگر تم اپنے سنگھیوں کی ٹولی میں زیادہ صلاحیت پیدا کرنا چاہتے ہو تو اپنی استبداد کو بہت بناؤ اور اُسے بڑھاؤ۔ یہ تعلق ، زندگی کے تمام پہلوؤں میں ، ہر شے پر لاگو ہوتا ہے ۔ زندگی تمھیں ہر وہ شے واپس لوٹائے گی جو تم اُسے دو گے ۔تمھاری زندگی محض  ’’ اتفاق ‘‘ نہیں ۔ یہ تمھارا ہی ’’ پَرتُو ہے !‘‘
جی تو قارئین، آپ کی کیا رائے ہے، اس باے میں؟

دو مینڈک

Saturday, May 21st, 2011

       مینڈکوں کی ایک ٹولی اپنی ہی دھن میں، جنگل میں کہیں جا رہی تھی کہ اچانک اُن میں سے دو مینڈک ایک گڑھے میں جا گرے ۔ دوسرے مینڈکوں نے جب جھانک کرگڑھے میں دیکھا کہ وہ کتنا گہرا ہے تو وہ ان دونوں مینڈکوں کو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اُن کے لیے ’’ زندہ و مردہ ‘‘ دونوں صورتیں اب ایک برابر ہیں ۔
اُن دونوں مینڈکوں نے اپنے ساتھیوں کے  اس تبصرے کو نظر انداز کر دیا اور گڑھے سے باہر نکلنے کے لیے  اپنی پوری قوت کے ساتھ اوپر اچھلنا شروع کردیا تاکہ کود کر گڑھے سے باہر نکل سکیں۔ دوسرے مینڈکوں نے انہیں ایسا کرنے سے باز رہنے کو کہا کیونکہ اُن کے خیال میں وہ دونوں  مینڈک مردہ یا زندہ ایک برابر ہی تھے ۔ بلآخر اُن دونوں میں سے ایک مینڈک نے دوسرے مینڈکوں کی بات مان لی اور گڑھے سے باہر نکلنے کی اپنی کوشش روک دی ۔ اور وہ گر کر مر گیا ۔
 دوسرے مینڈک نے گڑھے سے باہر نکلنے کے لیے اپنی کوشش جاری رکھی اور بڑی شدت سے اچھلتا کودتا رہا ۔ دوسرے مینڈک  شور مچاتے ہوئے اسے بھی اپنے ساتھی مردہ مینڈک کی طرح اپنی کوشش ترک کرکے مر جانے کے نعرے لگا رہے تھے ۔ لیکن اُس نے اپنی کوشش اور بھی تیز کردی اور بلآخر یہ مینڈک  گڑھے سے باہر کود جانے میں کامیاب ہو گیا۔  جب وہ گڑھے سے باہر نکل آیا تو  دوسرے مینڈکوں نے اُس سے پوچھا ’’  کیا تم نے ہماری آوازیں نہیں سنی تھیں؟ ‘‘  مینڈک نے جواب دیا،  ’’  میں تو بہرہ ہوں، میں یہی سمجھتا رہا کہ تم میری ہمت بڑھا رہے ہو‘‘۔
آپ کیا سمجھے؟
نتیجہ خود اخذ کیجیئے ۔