’’ جمعہ کا دن ‘‘ ، ’’ عدم تحمل و نارواداری ‘‘ ۔
از : نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔
آج جمعہ تھا اور مجھے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک مسجد کے قریب واقع ایک کیفے ٹیریا میں پہنچنا تھا ۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ جمعہ کی نماز کے بعد بیشتر مسلمان اس کیفے میں چائے کافی وغیرہ پینے اور آپس میں تبادلہ خیال کرنے کے لیے آتے ہیں ۔ میرے وہاں جانے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ مسلمان یہاں ڈنمارک میں اپنے بارے میں کیا محسوس کرتے اور یہاں کے سماج کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ وہ کہاں تک ڈینش اقدار اپنا چکے ہیں اور کہاں تک اپنے دینی تشخص کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ معلومات مجھے اپنے ایک مضمون کی تیاری کے لیے درکار تھیں اور میں نے اپنے ایڈیٹر سے وعدہ کر رکھا تھا کہ سوموار تک اسے یہ مضمون، اُس کی میز پر مل جائے گا ۔
دراصل ایک جرمن سیاستدان کی پیروی کرتے ہوئے ڈنمارک کی قومیت پرست، ڈینش پیپلز پارٹی کے ایک سیاستدان نے بھی پچھلے دنوں اپنے ایک بیان میں ’’ دین اسلام ‘‘ کو ’’نازی ازم ‘‘ کے ہو بہو برابر گردانتے ہوئے ، مسلمانوں کو ڈنمارک کے لیے خطرہ قرار دیا تھا اور اس کے اس بیان پر ملکی میڈیا میں ہی نہیں عوام میں بھی بحث مباحثے جاری تھے اور سیاستدان بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں پیچھے نہیں تھے ۔ اکثریت کی رائے میں اس کے بیان میں وزن تھا ۔ اور یہی وجہ تھی کہ مجھے بھی غیر ملکیوں کے بارے میں ایک کڑاکے دار مضمون لکھنے کو کہا گیا تھا ۔ ’’ ان مسلمانوں کا ذرا کچا چھٹا سامنے لاؤ!‘‘ میرے ایڈیٹر نے مجھے تاکید کی تھی ۔
میں کیفے ٹیڑیا میں پہنچا تو وہاں کچھ لوگ بیٹھے چائے اور دیگر مشروبات سے لطب اندوز ہورہے تھے ۔ وہ سروں پر ٹوپیاں پہنے، گلے میں مفلر نما چارخانےدار رومال لٹکائے، ہاتھوں میں تسبحیاں گھماتے ، آ پس میں بڑے خوش انداز میں گفتگو کر رہے تھے ۔ چہروں سے وہ الگ الگ ملکوں سے آئے ہوئے لگتے تھے ۔ اور شاید اسی لیے وہ ڈینش زبان میں باتیں کر رہے تھے ۔ اگرچہ اُن میں سے کئی ایک کی ڈینش اتنی اچھی نہیں تھی لیکن یوں لگتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی باتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ وہ آپس میں مختلف ہوتے ہوئے بھی ’’ ایک ‘‘ دکھائی دے رہے تھے ۔ ان کا موضوع بھی ڈینش سیاستدان کا وہی بیان تھا جس میں اُس نے، سلام کو نازی ازم کے برابر قراد دیا تھا ۔ میں بھی ایک کرسی لے کر ایک میز پر اُن کے قریب ہی بیٹھ گیا ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ اُن سے براہ راست کوئی بات نہیں کروں گا بلکہ سنوں گا کہ وہ ایک دوسرے سے کیا باتیں کرتے ہیں اور اگر ضرورت ہوئی تو بعد میں اُن میں سے کسی ایک سے بات کر لوں گا ۔
میں نے اپنے لیے کافی منگوائی اور بظاہر اُن کی باتوں سے لاتعلق، اسے پینے لگا اور ساتھ ہی وہاں پڑا ہواایک اخبار لے کر اس کی ورق گردانی کرنے لگا ۔
’’ میرا بس چلے تو میں ڈنمارک میں رہنے والے مسلمانوں میں سے چار ہزار مسلمانوں کو ہر زور چار ہزار چینیوں کے ساتھ بدل لوں اور کچھ ہی ہفتوں میں چار لاکھ مسلمانوں کو چار لاکھ چینیوں سے بدل کر ان سے نجات پا لوں ‘‘ میری نظریں ڈینش پیپلز پارٹی کے ایک سیاستدان کے بیان پر رک گئیں ۔ ’’ یہ مسلمان ہمارے لیے ، ہمارے ملک اور ہمارے سماجی رفاعی نظام کے لیے مسئلہ ہی نہیں ایک بڑا خطرہ بھی ہیں ۔ یہ ڈینش سماج میں انٹگریٹ ہونا نہیں چاہتے بلکہ ہمیں مسلمان کرنا اور یہاں اپنی اقدار لانا چاہتے ہیں‘‘ ۔ میں اس سے آگے کچھ نہ پڑھ سکا ۔ کافی کی پیالی میرے ہاتھ سے چھلکنے ہی والی تھی ۔
’’ بیس تیس سال پہلے، کیا کوئی ایسی باتیں ہمارے خلاف کرتا تھا ؟ کبھی نہیں!، آج ہر کوئی سیاستدان، اخبارات، نام نہاد دانشور اور وہ نئے نازی اور اُن کی ماں، ڈینش پیپلز پارٹی کی پیا کھیآ سگورڈ نے تو حد ہی کر دی ہے، ہم مسلمانوں پر کیچڑ اچھالنے کی ۔‘‘ مجھے اپنے پیچھے سے ایک آواز آئی ۔
’’اب دیکھونا، ہم یہاں کئی کئی سال سے رہ رہے ہیں لیکن یہ ڈینش، یہ ہمیں آج بھی ’’ اجنبی ‘‘ ہی کہہ کر پکارتے ہیں ۔ میرے پاس ڈینش پاسپورٹ ہے ، پھر بھی یہاں وہاں، جہاں کہیں جاتا ہوں مجھ سے پہلا سوال یہی کیا جاتا ہے ’’ تم کس ملک سے آئے ہوئے ہو، کیا تم مسلمان ہو؟‘‘ اب بتاؤ کیا یہ پوچھنا ضروری ہے؟ ‘‘ میں تو یہی جواب دیتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں ، ڈنمارک میں رہتا ہوں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا، کام کرتا اور ٹیکس ادا کرتا ہوں ، بالکل جیسے دوسرے شہری کرتے ہیں ۔‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا ، ایک باریش ترک بڑے اعتماد سے بول رہا تھا ۔ وہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح کے دانے پھیر رہا تھا ۔
’’ تم ٹھیک کہتے ہو، میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں ۔‘‘ ایک دوسرے نے قہوے کی چسکی لیتے ہوئے لقمہ دیا ۔
’’ان ڈینشوں کو ان ہی کی زبان اور ان ہی کے لہجے میں جواب دینا چاہیئے ۔‘‘ ایک جو قدرے جوان تھا اور جوش میں دکھائی دے رہا تھا ، بولا ۔
کچھ تو مسلمانوں کے خلاف سیاستدانوں کے بیانات اور میڈیا کی جانب سے حاشیہ آرائیاں اور ڈینشوں کے ہاں غیر ملکیوں اور خاص کر مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے مفروضات نے پچھلے کئی ایک سال سے ماحول میں نسلی تعصب کی کثافت میں اضافہ کر رکھا تھا اور پھر پچھلے دنوں ملک کے سب سے بڑے اخبار کی جانب سے نبی اسلام ، مسلمانوں کے پیغمبر کے خاکے شائع کیے جانے کے بعد تو گویا مسلمانوں کے جذبات کو بڑھکانے اور انہیں سیخ پا کرنے کے لیے ان کے خلاف آگ پر تیل چھڑک دیا گیا ہو ۔
مسلمانوں کی مساجد، ان کے ریستورانوں، دکانوں اور ٹیکسی سینڈ وں پر ان دنوں اُن کاایک ہی موضوع تھا ’’ یہ ڈینش چاہتے کیا ہیں؟ کیا ہم اپنے پیغمبر کی توہین ہوتے دیکھیں اور خاموش رہیں! ، یہ پہلے پنگا لیتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ ہم ’’ آہ ‘‘ بھی نہ بھریں ‘‘۔ مسلمانوں کے حلقوں میں پائی جانی والی اس صورت حال سے میں کسی حد تک آگاہ تھا ۔ اور یہ بھی جانتا تھا کہ اگرچہ ان خاکوں کی اشاعت کے خلاف کئی مسلمان ملکوں میں بڑے پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے تھے اور ڈینش املاک و سفارتخانوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا ور ڈینش قومی پرچم بھی نذر آتش کیے گئے تھے اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’’ ڈنمارک اپنے اس مکروہ فعل پر امتِ اسلامیہ سے معافی مانگے لیکن اس اخبار نے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ بڑے سخت الفاظ میں لکھا تھا کہ ’’ مسلمانوں میں تحمل ہے ہی نہیں، وہ آزادی اظہار کو سمجھتے ہی نہیں اور جہاں تک حکومت کا تعلق تھا، اس نے اس معاملے پر ملک میں مسلمان ملکوں کے سفیروں سے بات تک کرنا مسترد کر دیا تھا۔ مجھے یاد تھا کہ ایک دو کو چھوڑ کر مسلمانوں کے اماموں نے جمعہ کے خطبوں میں ان خاکوں کی اگرچہ شدید مذمت کی تھی لیکن انہوں نے مسلمانوں کو ان کے خلاف صبر و تحمل سے کام لینے اور خالص جمہوری و قانونی طریقوں سے احتجاج کرنے کو کہا تھا اور ملکی قانون کی ذرہ بھر خلاف ورزی کرنے کے خلاف انتباہ کیا تھا ۔ البتہ ان کے اس انتباہ کے باوجود ایک اسلامی تحریک شاید حزب التحریر کے نوجوانوں نے کچھ احتجاجی مظاہرے کیے اور جلوس نکالا تھا اور ان کے اس جمہوری حق پر انہیں میڈیا میں لعن طعن کی گئی اور سیاستدانوں نے انہیں آزادی اظہار کے سلسلے میں ڈینش اقدار اور سوچ کو اپنانے پر زور دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر ان کو ڈینش طرز آزادی اظہار قبول نہیں تو وہ اپنے اپنے ملک واپس چلے جائیں‘‘ ۔ میں اپنی سوچ میں کھویا ہوا تھا کہ اُن میں سے ایک نے بڑے زور سے بیرے کو آواز دی ’’ محمود! ہم سب کے لیے کچھ تازہ چائے ، قہوہ ، کافی اور کولڈ ڈرنک تو لاؤ بھائی۔‘‘
’’ بھائی ‘‘ کا لفظ سن کر مجھے یاد آیا کہ ابھی پچھلے دنوں خود وزیر اعظم نے یہ بیان دیا تھا کہ ’’ یہ غیر ملکی اور خاص کر مسلمان یہاں ڈنمارک میں اپنی ہی دنیا بسانا چاہتے ہیں ۔ یہ یہاں جمگٹھوں کی صورت میں رہتے ہیں ‘‘ ۔
’’ دیکھو نا، اب تو ہمیں فیکڑیوں اور کام کاج کی جگہوں پر بھی ڈینش عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ میرا فورمین تو مجھ سے کھچا کچھا سا رہنے لکھا تھا ۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ تم مسلمان اُس خاکے بنانے والے کارٹونسٹ کو قتل کرنا چاہتے ہو‘‘ ایک خشخشی سی داڑھی والا ، چابیوں کا ایک گچھا ہوا میں اچھالاتا ہوا بولا ۔ اپنے لباس اور چہرے مہرے سے وہ کوئی ٹیکسی ڈرائیور لگتا تھا ۔ بیرا محمود اُن کے لیے چائے، کافی اور کولڈ ڈرنک لا کر ان کی میز پر رکھ گیا تھا ۔
’’ہاں یہ بات تو ہے ‘‘ ایک نے چمچ سے کافی میں چینی ملاتے ہوئے ، پہلے کی بات کو آگے بڑھایا ۔ ’’ صرف کام کاج کی جگہوں پر ہی نہیں، عام لوگ تو اب ہمیں بسیں چلاتے یا ٹیکسیاں چلاتے دیکھ کر ان میں بیٹھنے سے گھبراتے ہیں ۔ ‘‘
’’ ہم ان میں کتنے ہی گھل مل کیوں نہ جائیں یہ ہمیں اپنے برابر سمجھتے ہیں نا اپنا حصّہ، اور یہی نہیں یہ تو سمجھتے ہیں کہ ہم نے ’’ ڈینش سماج کے اندر اپنا ایک متوازی سماج قائم کر رکھا ہے ‘‘ ۔ ایک نے کہا اور اپنی ٹوپی اتار کر میز پر رکھ دی ۔ اس کے سر کے بال اڑے ہوئے تھے ۔
’’ یہ باتیں تو ہم روزانہ سنتے ہیں۔ یہ ڈینش ملٹی کلچرل ازم ۔۔۔۔ وہ کہا کہتے ہیں کثیر الثقاتی ماحول پر تو یقین ہی نہیں رکھتے۔ وہ اپنی سفید جلد کے ساتھ ہمارا کالا، بھورا یا سنولا رنگ قبول ہی نہیں کر سکتے ‘‘ ۔ وہ نوجوان جوکچھ دیر پہلے بڑا جوش دکھا رہا تھا بولا ۔ ’’ کیا تم سبھی نہیں جانتے کہ ابھی کل ہی وزیر داخلہ کہہ رہے تھے کہ ’’ مسلمانوں کو یہاں شریعت نافذ نہیں کرنے دی جائے گی ۔ ڈنمارک میں اسلامی شرعی قوانین کا خواب دیکھنے والوں کو ہماری اقدار اپنانی ہوں گی یا انہیں یہاں سے جانا ہو گا ۔ مسلمانوں کو ڈینش معاشرے میں ’’ انٹگریٹ ‘‘ ہونا ہی پڑے گا ‘‘۔ اب اُن میں کچھ ہلچل سی ہونے لگی تھی اور ان میں دو تین نے اپنی اپنی کرسیوں پر پہلو بدل کر نوجوان کو بڑے غور سے دیکھنا شروع کردیا تھا ۔ ’’ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ یہ ہمیں ہمارے اپنے طور طریقوں، اقدار، رسم و رسوم یہاں تک کہ مذہب سے بھی کنارہ کش ہوجانے پر زور دیتے ہیں یہ انٹیگریشن تو نہ ہوئی یہ تو ’’آسیمیلیشن ‘‘ ہوئی ۔ ہم ڈینش بننے کے شوق میں اپنا سب کچھ کھو دیں، عجیب منطق ہے ان کی ۔۔۔۔ ہے نا؟ ‘‘ نوجوان نے دوسروں کی جانب دیکھا ۔ جو بڑے زور سے قہقہے لگا رہے تھے ۔
’’ سؤر ڈینش! ‘‘ اُن میں سے ایک جو بڑی عمر کا دکھائی دے رہا تھا اور اب تک خاموش تھا، بولا ۔ ’’ حرامیوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کا اصل باپ کون ہے اور طعنے ہمیں دیتے ہیں کہ ہمیں تہذیب ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے ان ۔۔۔ شیطان کی اولادوں پر!‘‘ اس نے اپنے ٹھنڈے مشروب کا ایک گھونٹ لیا ۔ شاید اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا ۔
’’ ہاں یار! اب دیکھو نا، ان ڈینشوں کے ہاں تو ماں بیٹے سے ، باپ بیٹی سے اور بھائی بہن سے مباشرت کرتے ہیں۔ اور تو اور خود باپ اپنی بیٹیوں کی دلالی کرتے ہیں، وہ تم ایکسٹرا بلیڈٹ اخبار اٹھا کر دیکھ لو ایسے کتنے ہی واقعات سے روزانہ بھرا ہوتا ہے۔‘‘ ایک انگڑائی لیتے ہوئے بولا ۔ ’’ یہ ہماری نسلوں کو بھی اسی طرح تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اب اور کچھ نہیں تو حجاب اور پردے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ ان کی اپنی عورتوں، لڑکیوں کو تو دیکھو عریانیت کے شوق میں بدن پر بس ایک گرہ کپڑے کی تہمت لگائے یوں گھوم رہی ہوتی ہیں کی جیسے سڑک پر نہیں اپنے باتھ روم میں ہوں اور انہیں کوئی دیکھ ہی نہیں رہا ، مادر ذاد ننگے، بے حیا!، ہم اپنے طریقوں سے اپنی نئی نسل کو اس گمراہی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ الٹا ہمیں ہی برا بھلا کہتے ہیں ، کہ ہم اپنی اولادوں کو سماج میں آگے نہیں بڑھنے دیتے، ہم انہیں دبا کر رکھتے ہیں، ان کی جبری شادیاں کر دیتے ہیں، اور خود یہ ڈینش جو بن بیاہی مائیں بنتی ہیں ، اپنے ہی باپ یا بھائی کی داشتہ ہوتی ہیں انہیں سماج کی یہ برائیاں دکھائی نہیں دیتیں ۔ مرد ، مرد سے اور عورتیں، عورتوں سے شادیاں کر رہی ہیں اور پادری ان کے نکاح پڑھواتے ہیں ۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری اولادیں اسی دلدل کے کنویں میں گر جائیں ۔ استغفر اللہ !‘‘
میں نے اپنی ٹھنڈی کافی کی ایک لمبی چسکی لی ۔ ’’ یہ لوگ اپنے ہی تہذیبی حصار میں کس قدر محصور ہیں ‘‘ ، میں نے سوچا۔ اور بیرے کو ایک تازہ کافی لانے کو کہا ۔
’’ بھائیو، چھوڑو ان باتوں کو ، ہم کتنے ہی اپنے آپ کو ڈینش بنا لیں، یہ جو گوری رنگت، نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والے ہیں نا یہ ہمیں کبھی اپنے برابر نہیں سمجھیں گے، اب ہماری نئی نسل ہی کو لے لو ، ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود ان میں سے کئی ایک تو بلکل ڈینشوں کی ڈگر پر چل رہے ہیں لیکن نتیجہ کیا، خاک!، نہ انہیں کوئی روزگار دیتا ہے، نہ انہیں شبینہ کلبوں میں داخل ہونے دیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ وہ بیچارے تو ڈینشوں کی نظروں میں ، سزا یافتہ مجرم سمجھے جاتے ہیں ‘‘۔ ایک پہلو بدلتے ہوئے بولا ۔ ’’ اب ایسے میں یہ نوجوان اپنے گروپ نہ بنائیں کو کیا کریں ۔ وہ بھی تو اجتماعیت چاہتے ہیں ۔ محصور کیوں رہیں ۔ انٹگریشن کے نام پر آسیمیلیشن ‘‘ کیوں قبول کریں ۔ آخر اپنا تشخص کیوں کھوئیں، سماج کی اچھائیوں پر انہیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن یہ تو ڈینش خود میں جو انہیں، طرح طرح کے ناموں سے پکارتے اور انہیں خود سے دور دھتکار دیتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ مسلمان نوجوان، حزب التحریر یا الشباب میں جا رہے ہیں‘‘۔
میں نے دیکھا کہ یہ کہنے والے کے چہرے پر عجیب طرح کے تاثرات تھے ۔ اب وہ بڑے آرام سے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائے اپنی تسبیح کے دانے گھما رہا تھا ۔
’’ ہاں بھئی یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ڈینش غالب اکثریت ہم اقلیتوں کو الزام تو دیتی ہے لیکن ہمیں ساتھ ملانے کے لئے ہماری بات تک نہیں سنتی اور اپنی ہی مرضی ہم پر تھونپنے میں لگی ہوئی ہے۔ بھلا ایسے بھی ہو سکتا ہے!‘‘ ان میں سے ایک نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔
بیرا میرے لیے کافی لے آیا تھا۔ میں نے ایک چسکی لی اور پھر میز پر پڑے ہوئے اخبار کو یونہی الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا ۔ میرے کان اُن کی باتوں پر لگے ہوئے تھے ۔
’’ تو پھر کیا خیال ہے حاجی! ‘‘ اُن میں سے ایک اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے کو کہنی مارتے ہوئے بولا ۔ ’’ اب کیا یہیں بیٹھے رہیں گے یا کچھ کام بھی کریں گے؟‘‘
میرا ذہن اب ماؤف ہونے لگا تھا اور میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ غیر ملکی، یہ مسلمان ، ڈینشوں اور سماج کے متعلق جو کچھ کہہ رہے ہیں ، ہے تو ٹھیک لیکن سماج ان کی آواز کیوں نہیں سنتا ۔ یہ سیاستدان، یہ میڈیا جس میں خود میرا اخبار بھی شامل ہے، یہ دانشور اور محقیقن آخر ان مسلمانوں ہی کے بارے میں کیوں شور مچاتے رہتے ہیں ۔ محض اس لیے کہ وہ سماج کی برائیوں سے بچنا چاہتے اور اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے اپنے دینی تشخص اور سماجی رسوم و اقدار کو محفوظ رکھنا اور انہیں اپنی نئی نسل کو منتقل کرنا چاہتے ہیں ۔ بالکل ویسے ہی جیسے برسوں پہلے ڈنمارک سے ہجرت کر جانے والے، امریکہ کینیڈا، آسٹریلیا اور نجابے کن کن دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہو جانے والے ڈینش کرتے ہیں ۔ میں نے بڑی مشکل سے کافی کا ایک گھونٹ حلق سے نیچے اتارا ۔ اور اخبار کوایک طرف رکھ دیا ۔
ابھی میں وہاں کچھ دیر اور بیٹھنے یا چلنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ کیفے ٹیریا کا دروازہ کھلا اور عربی لباس میں ملبوس، سر پر بڑے ہی خوبصورت انداز میں ٹوپی پہنے ، باریش ، مسکراتا ہوا ایک شخص داخل ہوا ۔ اپنے اس عربی لباس اور اپنی وضع قطع سے وہ تیونس سے لگتا تھا۔ وہ سیدھا اسی میز کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں وہ سبھی بیٹھے ہوئے ۔ جونہی وہ اُن کے قریب پینچا تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے اپنے مشروب چھوڑ کر بڑے ادب کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور بڑی تعظیم کے ساتھ اس سے مصافحہ کرنے لگے اور ایک دو نے تو اُس کے ساتھ باقاعدہ معانقہ بھی کیا ۔ میرے خیال میں وہ پڑوس والی مسجد کا امام تھا ۔
’’ تو تم لوگ نماز جمعہ کے بعد سے یہاں بیٹھے ہوئے ہو‘‘ ۔ اس نے میز پر پڑے ہوئے ان کے مشروبات کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’جی ‘‘ ان میں سے ایک نے گردن جھکائی ۔
’’ میں ذرا یونہی مسجد سے باہر نکلا تھا، کیفے کے دروازے کے شیشے سے تھمیں یہاں بیٹھے دیکھا تو سوچا تمھیں سلام کرتا چلوں ۔‘‘ میرا شک ٹھیک نکلا ۔ وہ مسجد کا امام ہی تھی ۔
’’ آئیے، تشریف رکھیں‘‘ ۔ ان میں ایک نے اپنی کرسی آگے بڑھاتے ہوئے اسے بیٹھنے کی دعوت دی ۔ ’’ آپ کچھ پیئیں گے، چائے، قہوہ، کافی یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ نہیں، نہیں، مجھے جانا ہے ۔ تم لوگ بیٹھو، باتیں کرو۔ میں چلتاہوں تم عشا کی نماز کے لیے آؤ گے تو باتیں ہوں گی ۔ مراکشی قہوہ میری طرف سے ہو گا ‘‘ امام نے سب سے باری باری مصافحہ کیا ۔ ’’ اچھا تو فی امان اللہ ‘‘ عشا کے وقت ملاقات ہوگی ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ مڑا اور دروازے کی جانب چل دیا ۔
’’ عشا کے وقت ملاقات ہوگی! ‘‘ ان میں سے ایک بولا ۔ ’’ ٹیکسی اس کا باپ چلائے گا، جمعہ کی شام اور ویک اینڈ ہی تو کمائی ہوتی ہے جب ڈینش نشے میں مدہوش ہوتے ہیں۔ انہیں ہم ہی تو گھر پہنچاتے ہیں ‘‘ ۔ اس پر سب نے قہقہہ لگایا ۔
میں نےاُن سب پر ایک نظر ڈالی ۔ ان کے چہروں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔ اُن کو یوں مسکراتے دیکھ کر میرے ذہن میں سوال آیا کہ یہ لوگ ڈنمارک کے لیے کیسے خطرہ ہو سکتے ہیں ، ان کا دین و مذہب ان کی اقدار ہمارے ڈینش سماج کے لیے کیوں زہر سمجھی جاتی ہیں؟ میرے ذہن میں اسی طرح کے کئی سوال سر اٹھا رہے تھے ۔ ہمارے سیاستدان ان لوگوں کے پس منظر اور ڈینش سماج میں آگے بڑھنے کے لیے ان کی خواہشات اور اپنی اولادوں کے بارے میں فکر و سوچ کو کیوں نہیں سمجھتے اور ان اقلتی برادریوں پر اپنے دروازے کیوں نہیں کھلنے دیتے؟‘‘ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ بیرے نے مجھے متوجہ کیا ’’ تم نے کافی پی لی، میں پیالی اٹھا لوں؟‘‘
میں نے اسے پیسے ادا کئے اور وہاں سے اُٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کیفے ٹیڑیا سے باہر نکل آیا ۔ کچھ ٹھنڈی ہوا کے باوجود مجھے پسینہ آ رہا تھا ۔۔۔۔ اور اب میرے ذہن میں بس ایک ہی خیال تھا کہ کیا میں مسلمانوں بارے ویسا ’’ کڑاکے دار مضمون ‘‘ لکھ پاؤں گا جیسا میرا مدیر چاہتا ہے ۔
شاید کبھی نہیں! ۔