کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو
________________________
امشب ہوا میں تازہ کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو پھیلی ہے
پیڑوں کی شاخوں پر سیب لٹک رہے ہیں
پرندے اپنے گھونسلوں میں واپس جا چکے ہیں
موسم گرما، توقعات و یادداشتوں کے درمیاں،
اِک راہ گم کردہ احساس ۔
موسم گرما تو پتنگوں کے لیے ہے
اُن کی سچائی کے لمحے اندھیرے کے بعد آشکار ہوتے ہیں
تب وہ اڑتے ہوئے ہماری کھڑکی کے شیشے سے چمٹ جاتے ہیں
اور انتظار کرتے ہیں کہ کب، موقع پائیں اور
ہماری شمع کی کرنیں کاٹ کے رکھ دیں
اس سمے وہ اپنی یادداشتیں بھول جاتے ہیں کہ
اُن کے پشتوں کے ساتھ کیا ہوا تھا، وہ تو بس
توقعات لیے، انجام سے بے خبر، دیوانہ وار
کھڑکی کے شیشے سے سر ٹکراتے رہتے ہیں،
شمع جلتی رہتی ہے، پگلتی رہتی ہے اور پھر
آنسوؤں میں ڈوب جاتی ہے ،
کھڑکی کے باہر پتنگوں کی لاشیں پڑی رہ جاتی ہیں،
کل صبح انہیں مکھیاں کھا جائیں گی
سورج، شمع کو نگل چکا ہوگا
کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو اُڑ چکی ہوگی ۔
( نصر ملک ۔ کوپن ہیگن) ۔
Archive for June, 2013
کٹی ہوئی گھاس کی خوشبو
Saturday, June 29th, 2013ہمارا آج کا دن کیسا ہو؟
Wednesday, June 26th, 2013کل جو گذر گیا، اس کا غم کیا
کل تو کل تھا، سو گذر گیا،
کل کی غلطی، یا برائی
اُس پر اب افسوس کیسا
ہمارا کل تو اب ہمیشہ کے لیے
ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے
ہم اسے اب کبھی واپس نہیں لا سکتے
ہم اپنے کل کے لکھے حرفوں کو نہیں مٹا سکتے
اب ہاتھ ملنے سے کیا فائدہ، ہاں البتہ
ہمیں اپنے آنے والے کل سے محتاظ رہنا چاہیئے
یہ ہمارے ’’آج‘‘ کو نگل نہ لے
ہمیں ’’ آج‘‘ محتاط رہنا ہوگا،
ہمیں کل کی اپنی غلطیوں کو دھرانا نہیں چاہیئے
ورنہ ہم آج ہی نہیں کل بھی پچھتائیں گے
کل جو آنے والا ہے
آئیں ہم اپنے ’’ آج ‘‘ کو پُر مسرت بنائیں
آنے والے اور گذرے ہوئے کل کی فکر چھوڑیں
اپنے ’’ آج ‘‘ کا دامن خوشیوں سے بھر لیں
آنے والے اور گذرے ہوئے کل کا آزالہ
خود بخود ہو جائے گا ۔
( نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ) ۔