محبت اور وقت

محبت اور وقت
از :  نصر ملک

قدیم زمانے کی بات ہے، ایک بہت ہی خوبصورت چھوٹے سے جزیرے پر سبھی  ’’  احساسات و جذبات ‘‘ ،  خوشی ، غمی، دانش  اور بہت سے دوسرے جن میں محبت بھی شامل تھی ، ایک ساتھ اکٹھے رہتے تھے ۔ ایک دن ان سب کو بتایا گیا کہ جزیرہ ڈوبنے والا ہے لہٰذا وہ اپنے  بچاؤ کے لیے کشتیاں تیار کر لیں ۔ اُن سب نے ایسا ہی کیا اور پھر اپنی اپنی کشتی پر سوار ہو کر جزیرہ چھوڑگئے، لیکن محبت نے نہ کشتی بنائی اور نہ ہی جزیرے کو چھوڑا ۔
اب جزیرے پر صرف محبت ہی تھی جو رہ گئی تھی اور وہ جہاں تک ممکن تھا، آخری لمحے تک وہیں رہنا چاہتی تھی ۔
جب جزیرہ کم و بیش ڈوب گیا تو محبت نے مدد کے لیے پکارا ۔
عین اُسی لمحے ’’ امارت ‘‘ قریب ہی سے اپنی بڑی کشتی میں سوار گزر رہی تھی ۔
محبت نے اُسے دیکھا تو زور سے آواز دی، ’’ امارت بہن کیا تم مجھے اپنے ساتھ لے چلو گی؟ ‘‘۔
’’ نہیں، میں تمھیں اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتی ۔ میری کشتی میں بیشمار سونا ، چاندی  اور جواہرات لدے ہوئے ہیں ۔ یہاں تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں‘‘۔  امارت نے کہا ۔
محبت نے ’’ تکبر ‘‘ سے پوچھا،  ’’ تکبر بھائی میری مدد کرو، مجھے اپنے ساتھ لے چلو‘‘۔
’’ نہیں میں تمھاری مدد نہیں کرسکتا‘‘۔ تکبر اپنی خوبصورت کشتی کو آگے بڑھاتا ہوا بولا ۔  ’’ تم پوری طرح بھیگی ہوئی ہو اور میری کشتی کو نقصان پہنچا سکتی ہو‘‘۔
اپنی کشتی میں سوار ’’ خوشی ‘‘ جونہی محبت کے قریب سے گزری اُس نے اُس سے بھی وہی سوال کیا لیکن،  خوشی اپنے آپ میں یوں خوش تھی کہ اُس نے محبت کی آواز ہی نہ سنی ۔
محبت نے  قریب سے کشتی میں گزرتی ہوئی ’’ اُداسی ‘‘  سے کہا کہ وہ  اُسے اپنے ساتھ اپنی کشتی میں سوار کرلے ۔
’’اوہ، پیاری محبت! میں ایسا نہیں کر سکتی، میں خود اتنی اداس ہوں کہ میں اپنے آ پ ہی میں رہنا چاہتی ہوں‘‘۔
پھر اچانک وہاں ایک آواز آئی ، ’’ محبت آؤ ! ادھر آؤ ، میں تمھیں اپنے ساتھ  لے چلتی ہوں ‘‘۔  یہ ایک بوڑھی آواز تھی ۔ محبت کی جان میں جان آئی اور وہ خوشی میں یہ جاننا بھی بھول گئی کہ وہ کس کی آواز تھی اور وہ اُسے کہاں لے جا رہی تھی ۔ جب وہ  خشک زمین پر پہنچیں تو  بوڑھی نے اپنی راہ لی اور اچانک غائب ہو گئی ۔ محبت سوچتی ہی رہ گئی کہ وہ بوڑھی کا شکریہ کیسے ادا کرے ۔
محبت نے ایک اور بوڑھی  ’’ دانش ‘‘  سے پوچھا کہ اگر وہ جانتی ہو کہ کہ اُس کی مدد کس نے کی تھی؟
’’ یہ ’’ وقت ‘‘ تھا ‘‘ ، دانش نے جواب دیا ۔
’’ وقت؟‘‘ ، محبت نےحیرانی سے پوچھا ۔ ’’ لیکن وقت نے میری مدد کیوں کی ؟ ‘‘۔
دانش نے مسکراتے ہوئے ایک گہری حکیمانہ سانس لی اور بولی، ’’ کیونکہ یہ صرف وقت ہی ہے جو سمجھ سکتا ہے کہ ’’ محبت ‘‘  کتنی قیمتی ہے‘‘ ۔

قارئین کرام! کہا آپ بھی ’’وقت ‘‘  سے متفق ہیں کہ ’’محبت ‘‘ سے بڑھ کر کوئی اور قیمتی شے ہو ہی نہیں سکتی؟

 

 

 

Leave a Reply

You must be logged in to post a comment.