آمد و رفت
( نصر ملک ۔ ڈنمارک ) ۔
کوئٹہ سے حسن کی تبدیلی جب کراچی میں ہوئی تو اُن دونوں میاں بیوی کی خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں تھا۔
’’ چلو یہاں کی قتل و غارت گری سے تو بچ جائیں گے۔‘‘ حسن کو ہر روز کے بم دھماکوں، لوگوں کے قتل ہونے اور بوریوں میں بند لاشوں کے برآمد ہونے پر ہر وقت تشویش رہتی تھی ۔اور اُن کے گھروالوں کو تو ایک دو بار دھمکیاں بھی مل چکی تھیں کہ وہ اپنے گھر پر لگے ہوئے ’’ علم ِ عباس ‘‘ کو اتار دیں ورنہ جو کچھ بھی ہوگا اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے ۔ اور فاطمہ بھی یہی سوچتی رہتی تھی کہ ہونا ہو ایک دن وہ بھی اس غارت گری کا نشانہ نہ بن جائیں ۔
حسن کو کراچی میں ایک بین الاقوامی کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی اور اب وہ اپنی بیوی اور ایک سال کی بچی کے ساتھ کراچی روانہ ہو رہے تھے ۔ امامیہ کالونی کے کئی لوگ انہیں خدا حافظ کہنے انہیں گھر پر آئے تھے اور حسن کے والدین نے آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ اور دعاؤں سے رخصت کیا ۔
کراچی آنے سے پہلے ہی حسن نے اپنے ایک جاننے والے کے ذریعے جعفریہ کالونی میں اپنے لیے ایک مکان کرائے پر لے لیا تھا ۔ اس لیے انہیں یہاں آکر مکان وغیرہ کے لیے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔
حسن کا یہ معمول تھا کہ صبح کام پر چلا جاتا اور دفتر سے چھٹی ہوتے ہی رستے میں گھر کے لیے سامان خریدتا اور پھر سیدھا گھر پہنچ کر بیوی اور بچی کے ساتھ ہنسی خوشی میں شامل ہو جاتا ۔ دن گزرتے جا رہے تھے اور فاطمہ بھی محلے میں خواتین کی ایک رفاعی انجمن میں شامل ہو کر نادار بچیوں اور بیوہ عورتوں کی مدد کے لیے کام کرنے لگی تھی ۔ وہ ننھی زینب کو ساتھ لے جاتی اور اس طرح اس کی کئی سہیلیاں بھی بن گئیں تھیں ۔
انہیں کراچی آئے تین ماہ ہو چکے تھے ۔ اور حسن ہر دوسرے تیسرے روز کوئٹہ میں والدین کو فون کرکے انہیں اپنے حالات سے آگاہ کردیتا تھا اور وہاں گھر والوں کی خیر خیریت پوچھ لیتا تھا ۔ وہاں ابھی تک تو سب خیریت سے تھے اور یہاں کراچی میں وہ بھی اپنے کنبے کے ساتھ بہت خوش تھا ۔ لیکن اچانک ایک دن ایسا ہوا جو انہیں خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔
آج اپنے کام کے بعد حسن جب گھر پہنچا تو وہ بیحد نڈھال دکھائی دے رہا تھا ۔ اور وہ بازار سے وہ سودا بھی نہیں لایا تھا جس کے لیے فاطمہ نے اُسے دفتر جاتے ہوئے کہاتھا ۔ حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا ۔ اس نے ننھی زینب کو بھی پیار نہیں کیا تھا وہ اُس کی ٹانگوں سے لپٹی ’’ بابا، بابا ‘‘ کی رٹ لگا رہی تھی ۔
’’ کیا بات ہے ؟ آپ چپ سے کیوں ہیں ؟‘‘ فاطمہ نے پوچھا۔
حسن جواب دینے کی بجائے فاظمہ کے چہرے پر نظریں جمائے چپ چاپ کھڑا تھا۔ اس کے اندر ایک ایسا تلاطم تھا کہ جس کے باہر نکلنے کا کوئی رستہ ہی نہیں تھا۔
’’آپ نے جواب نہیں دیا ‘‘۔ فاطمہ نے پھر اسے متوجہ کیا۔ ’’ کیا دفتر میں کچھ ہوا ہے؟‘‘
’’نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں، دفتر والے تو میرا گریڈ بڑھا دینے کی بات کر رہے تھے ۔‘‘ حسن بولا ۔ اس کی آواز یوں سنائی دے رہی تھی جیسے وہ کسی گہرے کنویں سے بول رہا ہو ۔
’’یہ تو خوشی کی بات ہے ۔ مولا کا کرم ہمارے شامل ہے، آپ کیوں اداس اداس سے لگتے ہیں؟‘‘
’’ میں ، میں اداس تو نہیں ہوں ۔۔۔۔ بس میں ۔۔۔۔ ‘‘ حسن اس سے آگے کچھ بھی نہ بول سکا اور اس کے ہونٹ کانپنے لگے اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ اُس نے اپنے کوٹ کی جیب سے کاغذ کا پرزہ نکال کر فاطمہ کی طرف بڑھا دیا۔ ’’ پچھلے تین دنوں سے کوئی میری میز پر اسی طرح کا رقعہ رکھ جاتا ہے ۔‘‘
فاطمہ نے وہ رقعہ پڑھنا شروع کیا، اس کے ہاتھ لرز رہے تھے ۔
’’ حرامی کافر، تم کوئٹہ سے فرار ہوکر ادھر آگیا تو کیا سمجھتا ہے تو بچ جائے گا ۔ ہم جانتے ہیں تو کہاں رہتا ہے اور تمھاری بیوی کن عورتوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔ تین دن کے اندر اندر نوکری چھوڑ کر وہیں چلا جا جدھر سے آیا ہے ورنہ تیری اور تیری بیوی اور بچی کی لاشیں ہی ادھر جائیں گی۔ وہ بھی اگر شناخت کے قابل رہیں تو ۔ تیرے پاس بس اب تین دن باقی ہیں ۔ یہ آخری وارننگ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
فاطمہ اس سے آگے کچھ نہیں پڑھ سکی تھی ۔ رقعہ اس کے ہاتھ سے نیچے گر پڑا تھا اور وہ حسن سے چمٹ کر رو رہی تھی ۔ ننھی زینب کی سمجھ میں کچھ بھی تو نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ وہ ان کی ٹانگوں سے لپٹی ہوئی تھی ۔
’’ تو آپ کیا کرنے والے ہیں؟‘‘ فاطمہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے حسن سے پوچھا ۔
’’ میں استعفیٰ دے آیا ہوں ۔ مولا مسب الاسباب ہے۔ ہم کل شام کی گاڑی سے واپس جا رہے ہیں‘‘۔ حسن کے لہجے میں اعتماد تھا اور وہ سنبھل چکا تھا ۔ اس نے ننھی زینب کو اٹھا کر سینے سے چمٹا لیا تھا، ’’ میری بیٹی کل دادا دادی کے پاس جائے گی ‘‘ وہ اسے بار بار چومتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’ کل شام ہم دادا دادی کے پاس جائیں گے ۔‘‘
آج شام ان کے گھر میں چولھا جلا اور نہ کھانا پکا ۔
فاطمہ اور حسن رات بھر سامان باندھنے میں لگے رہے ۔
اگلے دن وہ ایک ٹیکسی میں سوار ریلوے اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے ۔
( نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک ) ۔
Archive for the ‘Uncategorized’ Category
آمد و رفت
Sunday, July 21st, 2013تغیّر
Friday, November 11th, 2011ایک اور ظالم ماہ ختم ہوا، لیکن
ہمارے لیے چھوڑ گیا ہے بے کفن لاشوں کے انبار
حتیٰ کہ سانس لینا بھی موت ہے
اورپانی پینا بھی مرگ حیات ہے ۔
میں اتنی اموات سے دُ کھی نہیں ہوں، لیکن
میرا وطن اتنے قبرستانوں کا متحمل نہیں ہو سکتا
ہمیں اب وسیع اجتماعی قبریں کھودنا چاہیئے
جہاں ہم اپنے امن کے خوابوں اور امیدوں کو دفن کر سکیں۔
ہمارا مستقبل تو آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے
خون کی اُن ندیوں میں جو آئے دن پہاڑوں سے،
میدانوں کی جانب بہتی آتی ہیں، اور
سب کچھ ساتھ بہا لے جاتی ہیں ۔
نصر ملک ۔ کوپن ہیگن
یکم اکتوبر ٢٠١١ ء
اپنے ہی گھر کی تعمیر
Tuesday, June 7th, 2011اپنے ہی گھر کی تعمیر
ایک بڑھئی جسے ایک ٹھیکدار کے ہاں کام کرتے اور لوگوں کے لیے گھر تعمیر کرتے ہوئے عرصہ گزر چکا تھا، اس نے اب کام چھوڑ دینے اور اپنی باقی زندگی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس نے اپنے اس فیصلے سے جب ٹھیکدار کو مطلع کیا تو ٹھیکدار نے اُسے بہت سمجھایا اور کام جاری رکھنے کو کہا لیکن جب بڑھئی نہ مانا تو ٹھیکدار نے اسے اپنی اک یادگار چھوڑجانے کے لیے صرف ایک آخری مکان تعمیر کرنے کی درخواست کی ۔ ’’یہ مکان تمھاری نشانی ہو گا اور مجھے اور اس مکان میں رہنے والوں کو تمھارے بے مثال ہنر کی یاد دلاتا رہے گا ‘‘۔ ٹھیکدار نے اُس سے کہا ۔
بڑھئی نے ٹھیکدار کے کہنے پر مکاں کی تعمیر تو شروع کردی لیکن چند ایک دن میں اُس کا دل کام کرنے بھر سےگیا اور جس قسم کا بھی سمینٹ، اینٹیں، لکڑیاں اور دوسرا سامان ِتعمیر اسے ملا اُس نے کوئی چھان بین کیے بغیر اسے مکان کی تعمیر میں لگا دیا۔ وہ جلد سے جلد اس کام سے فارغ ہو جانا چاہتا تھا ۔ زندگی بھر دوسروں کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ مکانات تعمیر کرنے والے ایک نامی گرامی بڑھئی کے لیے اس طرح جلد بازی اور بے دلی سے مکان تعمیر کرنا ایک بدقسمتی تھی ۔
جب مکان تعمیر ہو گیا تو ٹھیکیدار اُس کے معائینے کے لیے آیا اور اُسے اندر و باہر سے دیکھ کر مکان کے بڑے دروازے پر آن کھڑا ہوا ۔ بڑھئی ابھی اُس سے پوچھنے ہی والا تھا کہ اسے مکان کیسا لگا کہ ٹھیکیدار نے مکان کے بڑے دروازے کی کنجی اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’ یہ مکان دراصل میرے لیے تمھاری خدمات کے عوض ایک تحفہ ہے، جاؤ اپنے بال بچوں کو لے آؤ اور یہاں رہو۔‘‘
بڑھئی وہاں بے حس و حرکت ایک بت بنا کھڑا تھا۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کیوں؟
محبت اور وقت
Monday, May 23rd, 2011محبت اور وقت
از : نصر ملک
قدیم زمانے کی بات ہے، ایک بہت ہی خوبصورت چھوٹے سے جزیرے پر سبھی ’’ احساسات و جذبات ‘‘ ، خوشی ، غمی، دانش اور بہت سے دوسرے جن میں محبت بھی شامل تھی ، ایک ساتھ اکٹھے رہتے تھے ۔ ایک دن ان سب کو بتایا گیا کہ جزیرہ ڈوبنے والا ہے لہٰذا وہ اپنے بچاؤ کے لیے کشتیاں تیار کر لیں ۔ اُن سب نے ایسا ہی کیا اور پھر اپنی اپنی کشتی پر سوار ہو کر جزیرہ چھوڑگئے، لیکن محبت نے نہ کشتی بنائی اور نہ ہی جزیرے کو چھوڑا ۔
اب جزیرے پر صرف محبت ہی تھی جو رہ گئی تھی اور وہ جہاں تک ممکن تھا، آخری لمحے تک وہیں رہنا چاہتی تھی ۔
جب جزیرہ کم و بیش ڈوب گیا تو محبت نے مدد کے لیے پکارا ۔
عین اُسی لمحے ’’ امارت ‘‘ قریب ہی سے اپنی بڑی کشتی میں سوار گزر رہی تھی ۔
محبت نے اُسے دیکھا تو زور سے آواز دی، ’’ امارت بہن کیا تم مجھے اپنے ساتھ لے چلو گی؟ ‘‘۔
’’ نہیں، میں تمھیں اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتی ۔ میری کشتی میں بیشمار سونا ، چاندی اور جواہرات لدے ہوئے ہیں ۔ یہاں تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں‘‘۔ امارت نے کہا ۔
محبت نے ’’ تکبر ‘‘ سے پوچھا، ’’ تکبر بھائی میری مدد کرو، مجھے اپنے ساتھ لے چلو‘‘۔
’’ نہیں میں تمھاری مدد نہیں کرسکتا‘‘۔ تکبر اپنی خوبصورت کشتی کو آگے بڑھاتا ہوا بولا ۔ ’’ تم پوری طرح بھیگی ہوئی ہو اور میری کشتی کو نقصان پہنچا سکتی ہو‘‘۔
اپنی کشتی میں سوار ’’ خوشی ‘‘ جونہی محبت کے قریب سے گزری اُس نے اُس سے بھی وہی سوال کیا لیکن، خوشی اپنے آپ میں یوں خوش تھی کہ اُس نے محبت کی آواز ہی نہ سنی ۔
محبت نے قریب سے کشتی میں گزرتی ہوئی ’’ اُداسی ‘‘ سے کہا کہ وہ اُسے اپنے ساتھ اپنی کشتی میں سوار کرلے ۔
’’اوہ، پیاری محبت! میں ایسا نہیں کر سکتی، میں خود اتنی اداس ہوں کہ میں اپنے آ پ ہی میں رہنا چاہتی ہوں‘‘۔
پھر اچانک وہاں ایک آواز آئی ، ’’ محبت آؤ ! ادھر آؤ ، میں تمھیں اپنے ساتھ لے چلتی ہوں ‘‘۔ یہ ایک بوڑھی آواز تھی ۔ محبت کی جان میں جان آئی اور وہ خوشی میں یہ جاننا بھی بھول گئی کہ وہ کس کی آواز تھی اور وہ اُسے کہاں لے جا رہی تھی ۔ جب وہ خشک زمین پر پہنچیں تو بوڑھی نے اپنی راہ لی اور اچانک غائب ہو گئی ۔ محبت سوچتی ہی رہ گئی کہ وہ بوڑھی کا شکریہ کیسے ادا کرے ۔
محبت نے ایک اور بوڑھی ’’ دانش ‘‘ سے پوچھا کہ اگر وہ جانتی ہو کہ کہ اُس کی مدد کس نے کی تھی؟
’’ یہ ’’ وقت ‘‘ تھا ‘‘ ، دانش نے جواب دیا ۔
’’ وقت؟‘‘ ، محبت نےحیرانی سے پوچھا ۔ ’’ لیکن وقت نے میری مدد کیوں کی ؟ ‘‘۔
دانش نے مسکراتے ہوئے ایک گہری حکیمانہ سانس لی اور بولی، ’’ کیونکہ یہ صرف وقت ہی ہے جو سمجھ سکتا ہے کہ ’’ محبت ‘‘ کتنی قیمتی ہے‘‘ ۔
قارئین کرام! کہا آپ بھی ’’وقت ‘‘ سے متفق ہیں کہ ’’محبت ‘‘ سے بڑھ کر کوئی اور قیمتی شے ہو ہی نہیں سکتی؟