دو مینڈک

May 21st, 2011

       مینڈکوں کی ایک ٹولی اپنی ہی دھن میں، جنگل میں کہیں جا رہی تھی کہ اچانک اُن میں سے دو مینڈک ایک گڑھے میں جا گرے ۔ دوسرے مینڈکوں نے جب جھانک کرگڑھے میں دیکھا کہ وہ کتنا گہرا ہے تو وہ ان دونوں مینڈکوں کو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اُن کے لیے ’’ زندہ و مردہ ‘‘ دونوں صورتیں اب ایک برابر ہیں ۔
اُن دونوں مینڈکوں نے اپنے ساتھیوں کے  اس تبصرے کو نظر انداز کر دیا اور گڑھے سے باہر نکلنے کے لیے  اپنی پوری قوت کے ساتھ اوپر اچھلنا شروع کردیا تاکہ کود کر گڑھے سے باہر نکل سکیں۔ دوسرے مینڈکوں نے انہیں ایسا کرنے سے باز رہنے کو کہا کیونکہ اُن کے خیال میں وہ دونوں  مینڈک مردہ یا زندہ ایک برابر ہی تھے ۔ بلآخر اُن دونوں میں سے ایک مینڈک نے دوسرے مینڈکوں کی بات مان لی اور گڑھے سے باہر نکلنے کی اپنی کوشش روک دی ۔ اور وہ گر کر مر گیا ۔
 دوسرے مینڈک نے گڑھے سے باہر نکلنے کے لیے اپنی کوشش جاری رکھی اور بڑی شدت سے اچھلتا کودتا رہا ۔ دوسرے مینڈک  شور مچاتے ہوئے اسے بھی اپنے ساتھی مردہ مینڈک کی طرح اپنی کوشش ترک کرکے مر جانے کے نعرے لگا رہے تھے ۔ لیکن اُس نے اپنی کوشش اور بھی تیز کردی اور بلآخر یہ مینڈک  گڑھے سے باہر کود جانے میں کامیاب ہو گیا۔  جب وہ گڑھے سے باہر نکل آیا تو  دوسرے مینڈکوں نے اُس سے پوچھا ’’  کیا تم نے ہماری آوازیں نہیں سنی تھیں؟ ‘‘  مینڈک نے جواب دیا،  ’’  میں تو بہرہ ہوں، میں یہی سمجھتا رہا کہ تم میری ہمت بڑھا رہے ہو‘‘۔
آپ کیا سمجھے؟
نتیجہ خود اخذ کیجیئے ۔

ایک بدعت گذار ستمکار کی موت

March 30th, 2011

نصر ملک، کوپن ہیگن

ایک بدعت گذار ستمکار کی موت

ایک نوجوان مبلغ یہ کہہ کر اپنی بستی کے لوگوں سے دور چلا گیا کہ اگر خداوند نے مجھے زندہ رکھا تو میں پچاس سال  بعد اپنی بستی میں آؤں گا ۔ اُس  نےبوقت رخصت اپنے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ وہ اس کے لیے دعا کریں کہ وہ خداوند کے ابدی پیغام کو پھیلا سکے اور تبلیغ کے جس مشن پر وہ روانہ ہو رہا ہے ، خود خدا اُس کی نگہبانی کرے اور اسے کامیابی سے نوازے۔

پچاس سال بعد، کڑاکے کی سردی میں، ایک رات ،ایک بہت ہی ضعیف و لاغر باریش فرد، پرانا جبہ  پہنے، اپنے گدھے کو ساتھ لیے، اسی بستی میں داخل ہوا اور اپنے گدھے کو بستی کے معبد کے باہر باندھ  کر خود سیدھا معبد میں داخل ہو گیا ۔ وہاں پر ہرشے ویسی ہی تھی جیسی پچاس سال پہلے تھی ۔ اُس نے  معبد کے مینار پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا ، “ میں آ گیا ہوں!، میں آ گیا ہوں!!‘‘جن لوگوں  نے اُس کی پکار سنی وہ معبد کی طرف بھاگے ۔ ہر کسی کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال تھا ، “ یہ کون ہے؟ ‘‘۔
اور جب وہ سب معبد میں اکٹھے ہوگئے تو اجنبی مینار سے نیچے اتر کر اُن کے درمیان آن کھڑا ہوا،  “ کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟‘‘  اُس
نے اُن سے پوچھا ۔ اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی اپنی کہانی سنا دی کہ کس طرح وہ پچاس سال پہلے اس بستی کو چھوڑ گیا تھا تاکہ خدا کے ابدی پیغام کو لوگوں تک پہنچا سکے۔
بھیڑ میں موجود بڑے بزرگوں اور اُس کے ہمعمر لوگوں نے اسے پہچان لیا تھا اور اُس کی آمد کو اپنے لیے نیگ شگون قرار دے رہے تھے ۔  “ ہمیں اپنے سفر کے بارے میں بتاؤ‘‘،  اُن میں ایک جو ایک ہاتھ میں چراغ اور دوسرے میں مقدس کتاب تھامے ہوئے تھا بولا ۔ اپنے حلیے سے وہ بھی کوئی امام و مبلغ ہی دکھائی دے رہا تھا ۔
 “ ہاں، ہاں! میں سب کچھ بتاتا ہوں‘‘ وہ مبلغ جو اب اسی پچاسی سال کا بوڑھا و ناتواں معمر دکھائی دیتا تھا بولا ۔
 پھر وہ سب معبد کے اندر ایک دائرے میں بیٹھ گئے اور اُس معمر و ناتواں مبلغ نے بولنا شروع کیا ؛
 “پچاس سال پہلے اپنی اس بستی کو چھوڑ کر میں کہاں کہاں گیا؟،  یہ تو ایک طویل قصہ ہے اور میرے ان پچاس سال کے سفر، تبلیغ اور لوگوں کے رویے کی داستان بھی بہت لمبی ہے، لیکن ایک بات جو میں اس وقت  آپ سب سے کہنا چاہتا ہوں، وہ میں خود اُن لوگوں سے سیکھ کر آیا ہوں جنہیں میں تبلیغ کرنے گیا تھا‘‘۔ 
اب اُس نے ایک گہری سانس لی اور پھر کہنے لگا،  “ میرے بزرگو، میرے ہم عمرو، میرے عزیزو، سنو! ، غور سے سنو، جو میں
کہنے لگا ہوں یہی میرے پچاس سال کے تبلیغی سفر کا نچوڑ ہے‘‘۔  سبھی لوگ ہمہ تن گوش تھے اور معمر مبلغ کے فرمان کے منتظر تھے ۔
معمر مبلغ نے اپنا جبہ درست کیا اور اپنی دستار سر پر سجائی اور لمبی  ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُن سے مخاطب ہوا،  “ میں ایک دن  دوردراز کے ایک ایسے گاؤں میں گیا جہاں لوگ ایک میت کو دفنانے جا رہے تھے ۔ میں بھی جنازے کے ساتھ ساتھ ہو لیا اور پھر قبرستان پہنچنے پر میت کو لحد میں اتارنے کے لیے میں بھی دوسروں کے ساتھ شامل ہو گیا ۔ یہی پر میں لوگوں کی نگاہ میں آگیا اور وہ ایک مبلغ ہونے کی میری حیثیت کو جان گئے اور مجھے عزت و تعظیم سے نوازا ۔  میت کو دفن کرنے کے بعد جب سب لوگ قبرستان سے واپس گاؤں جانے لگے تو مرحوم کے لواحقین نے مجھے بھی  اپنے ساتھ لے لیا اور اپنے ہاں شب بسری کی دعوت دی جو میں نے قبول کر لی ۔  میں اُن کے ہاں تین دن تک رہا لیکن میرے بزرگوں میرے ہمعمرو اور میرے عزیزو! اب جو کچھ میں تمھیں بتانے والا ہوں ، سنو گے تو کانپ جاؤ گے!،  وہ شخص جو میرا تھا وہ بڑا بدعتی اوربڑا ستمکار تھا۔ یہ بات مجھے اُس کے لواحقین کے پڑوسیوں نے بتائی تھی ۔ وہ نہ کبھی معبد میں جاتا تھا اور ہی اُس نے خداوند کے حضور کبھی کوئی قربانی دی تھی ۔ وہ گاؤں کے لوگوں کو ان کے عبادت گذار ہونے پر طعنے بھی دیا کرتا تھا، اور اب سنو!،  جب اُس کے لواحقین اسے دفنانے کے بعد دوسرے دن الصبح دستور کے مطابق اس کی قبر دیکھنے گئے تو انہوں نے اُس کی میت کو قبر کے باہر پڑا ہوا پایا، ارض خدا نے اس کی میت کو قبول نہیں کیا تھا ۔ اب لواحقین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میت کے ساتھ کیا کیا جائے۔ بالآخر انہوں نے اسے قبرستان کے ساتھ بہنے والے دریا میں پھینک دینے کا فیصلہ کیااور یہ کام کر کے واپس گھر لوٹ آئے ۔  اب اگلے دن الصبح وہ دریا کے کنارے وہاں پہنچے جہاں سے انہوں نے میت کو دریا میں پھینکا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور توبہ استفسار پڑھنے لگے کہ دریا نے بھی اس کی میت کو قبول نہیں کیا تھا اور اُسے کنارے سے باہر پھینک دیا تھا ۔ اب وہ بہت پریشان تھے کہ میت کو کہاں ٹھکانے لگائیں، زمین نے اسے قبول نہیں کیا تھا اور دریا نے بھی اسے باہر پھینک دیا تھا ۔ وہ اسی پریشانی کے عالم میں سوچ رہے تھے کہ اُن کے ایک برزگ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ میت کو جلا دیں کہ یہی خداوند کی مرضی ہے ۔  پہلے تو وہ گبھرائے لیکن جب خاندان کے دو تین دوسرے بزرگوں نے بھی اس پراتفاق کیا تو انہوں نے ایک چتا جلائی اور میت کو اس میں پھینک دیا۔“ معمر مبلغ تھوڑی دیر کے لیے رکا، اپنا گلا صاف کیا اور پھر بولا؛  “ میرے بزرگو، میرے ہمعمرو، میرے عزیزو، جب انہوں نے میت کو چتا میں پھینک دیا تو جانتے ہو کیا ہوا!، چتا کی ساری لکڑیاں جل کر راکھ ہوگئیں لیکن اس بدعتی کی میت جوں کی توں رہی، اسے آگ نے بھی قبول نہیں کیا تھا ۔ میرے بزرگو، میرے ہمعمرو، میرے عزیزو، تم سب اس سخت سردی میں اتنی رات گئے، میری پکار پر یہاں آئے ہو اور جاننا چاہتے ہو کہ میں  نے پچاس سال کے عرصے میں کیا تبلیغ کی ، کیا دیکھا اور کیا سیکھا،  توآج جب میں اسی پچاسی سال کا کمزور بوڑھا ہو گیا ہوں اور ابھی جو ایک سچااور چشم دید واقعہ میں نےآپ کو سنایا ہے، اُس کے نتیجے میں میری تبلیغ کا نچوڑ یہی ہے کہ ہم سب بدعت و ستم کاری سے دور رہیں، ان سے توبہ کریں، نیک و راستباز بنیں اور خدا کی مقدس کتاب اور اُس کے رسولوں کے فرمودات پر عمل کریں تاکہ، ہم جب مریں اور زمین اگر ہمیں  اپنے اندر نہ سمیٹے  یا دریا ہماری میتوں کو اچھال کر باہر  پھینک دیں تو کم سے کم آگ تو ہمیں جلا کر راکھ کر دے ۔ آمین ۔

 

 

 

 

 

خزانے کی تلاش

March 25th, 2010

خزانے کی تلاش

نصر ملک ۔ کوپن ہیگن

 تاریک رات

روشنی کا نشان تک نہیں

کفن چور، روپوش ہیں

ذہن کا خزانہ

عقل، قصہ ماضی ٹھہری

خوش طبعی و شگفتہ مزاجی مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

آنسو، خواب اور خوشیاں

March 13th, 2010

 

آنسو، خواب اور خوشیاں
از ؛  نصر ملک  ۔  ڈنمارک
———————-

آنسو تو وہیں ہوتے ہیں، جہاں
خوشیاں مسکراتی ہیں!۔
ہمیں اپنے شبہات کوسمجھنا چاہیے
تاکہ ہمارا یقین پختہ ہو!۔ مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

محبت ممنوع ہے !

March 7th, 2010

محبت ممنوع ہے
از:  نصر ملک  ۔  کوپن ہیگن  ۔ ڈنمارک
 کیا جنگ کے دوران محبت کرنے کے لیے وقت ہوتا ہے؟  یقیناً جنگ میں کوئی کسی دشمن سے تو محبت کر ہی نہیں سکتا ۔  زمانہ ٔ جنگ میں یہ ایک گناہ ہی تو ہوتا ہے، گناہ یا جرم! لیکن

مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

تعبیر

February 8th, 2010

تعبیر

از: نصر ملک

محرک قوتیں، خواب

پس منظر میں نیم موسیقی کی تانیں

تصورات، رقص کناں

میرے مقدر میں کہاں

 

میں انہیں اپنی گرفت میں لانا چاہتا ہوں

مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

حفاظتی پیش بندی

January 18th, 2010

حفاظتی پیش بندی 
نصر ملک  ۔  کوپن  ہیگن ۔

 
 ملک بھر میں یہ خبر ایک بم کے دھماکے سے کم نہیں تھی۔  ’’ آخر کیوں ! ‘ ایسا کیوں؟‘‘
 لاری اڈوں سے لے کر کیفے ٹیریوں تک بس ایک ہی سوال تھا جو عوام الناس کے ہونٹوں پر تھا۔
   مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

ضمیر کا سوال!۔

January 9th, 2010

ایک مختصر کہانی ۔

ضمیر کا سوال!۔
 نصر ملک  ۔  کوپن ہیگن  ۔ ڈنمارک
ایک گھبرایا ہوا  وکیل استغاثہ اور اس کے مقابلے میں ایک بہت ہی مطمئن وکیل دفاع ریڈیو کے سٹوڈیو میں ’’ ضمیر ‘‘  کے سوال پر بحث کے لیے مدعو تھے۔بحث کا بندوبست کرنے والے صحافی نے اس موضوع کی مناسبت سے خوب تیاری کررکھی تھی ۔  اور اس نے ان دونوں سے پوچھے جانے والے اپنے سوالات کو بھی مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

قصہ گو

January 2nd, 2010

قصہ گو
از  نصر ملک  ۔  کوپن ہیگن ۔

قدیم زمانے کی بات ہے، پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ایک پرانا کہوہ خانہ تھا جہاں دنیا بھر کے سیاح اور دیگر غیر ملکی سوداگر و تاجر آتے اور آپس میں ایک دوسرے کی باتیں سنتے اور تجربات سے آگاہ ہوتے تھے ۔ایک دن ایک جہاں دیدہ، علم الادیان سے مالا مال ایک ایرانی مسافر وہاں آیا ۔ مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

جوبلی تقریب میں تقریر

December 26th, 2009

جوبلی تقریب میں تقریر
 ایک مختصر کہانی
از :  نصر ملک ۔ کوپن ہیگن  ۔ ڈنمارک  ۔
جونہی اس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ حکومت کی جوبلی کی تقریب میں تقریر کرے گا  تو ملک بھر کے میڈیا میں یہ نوید سنائی گئی کہ بالآخر اسے  عزت و تقریم سے نوازا گیا ہے اور حقدار کو اس کا حق مل گیا ہے ۔  جو کہ بہت بڑی خوشی کی بات تھی ۔ لیکن بذات خود وہ سخت گومگو میں مبتلا تھا ۔  کیا واقعی اسے عزت و وقار سے نوازا گیا ہے ؟

مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔