شخص جو طیش میں تھا
October 4th, 2009ایک شخص جو طیش میں آنے کی وجہ رکھتا تھا ، ہر وقت از خود برہم رہتا تھا ۔ دوستانہ سوالات کا جواب بھی تندی و غضبناکی سے دیتا تھا۔ اور جوابات دیتے ہوئے طیش میں آ جاتا تھا ۔
الفاظ اور زوال
September 29th, 2009 سزا بڑی واضح ہے ، حقیقت کے بارے میں کوئی بھی دانستہ اقدام، بہت ہی مشکل، بلکہ شائد ایک وقت پر ناممکن بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ ’’ لفظ‘‘ کو پہلے،اس کے لیے اپنے آپ سے کھیلنا اور پھر اپنی غلطی فراموش کر دینے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے ۔
کوئی ایک اختلاف، تمام فسادات کی جڑ ہے ۔ مذہبی پنڈتوں، ملاؤں، راہبوں اور دیگر دینی مبلغوں کے نزدیک، ’’ الفاظ ‘ ‘ ،تضادات کے لیے حالات پیدا کرتے ہیں اور یوں انسانی انحطاط کا باعث بنتے ہیں ، نفسیاتی ماہرین انہیں صدمہ کا سُومہ سمجھتے ہیں، اور فلسفیوں کے نزدیک یہ غیر منطقی اور لغو ہے البتہ ، یہ تجربہ، کسی کے لیے ، خود اپنے آپ سے درگزرنہ کرنے کا سامنا کرنے کی وجہ بھی ہو سکتا ہے ۔
بعض یہ بھی سوچ رکھتے ہیں کہ اختلاف، نہ صرف جدید فنون بلکہ کسی بھی تخلیق کی تحریک کے لیے ایک مؤثر، عنصرہے ۔ اختلاف کہاںتک الفاظ کی پیداوار ہے یا یہ دونوں حقیقتاًآپس میں کتنے متوازی ہیں، اس بارے میںکچھ صاف واضح بھی نہیں ۔ ان دونوں کے درمیان، تعلق، ضروری نہیں کہ ’’ مسئلہ ‘‘ ہی ہو ۔ اور یہ بھی بہت مبہم ہے کہ صدمہ پہنچنے اور انسان کے زوال تک کے عین بیچ کی صورت حال کے دوارن ، الفاظ اس کا مداوا نہیں کر سکتے ۔
الفاظ کی نشست و برخاست، کسی تحریر میں ان کے لغوی معنی بھی بدل سکتی ہے اور ان کے نئے معنی و مطالب بھی سامنے لا سکتی ہے ۔ الفاظ کا پیچ در پیچ ایک دوسرے کے ساتھ، مفہوم و مطلب کے لیے نتھی ہونا، ان کے، مفہوم کو غیر واضح بھی بنا سکتاہے اور، یوںسوچ و سمجھ کی ایک نئی مشکل بھی جنم لے سکتی ہے ۔ جسے ایک نئی ’’ فکر ‘‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے ۔
حقیقت کے اصل تجربے کی بدیہی شرط، زوال ہے ۔ زوال ہی دراصل سچائی و حقیقت ہے ۔ ابد و خلود سے الفاظ کی جانب انحطاط ہی وہ فیصلہ کن اور قطعی اقدام ہے جو ’’ انسانی تاریخ ‘‘ کی روح ہے ۔
آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟
نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔
www.urduhamasr.dk
خوش آمدید
September 26th, 2009محترمھ ماریا علی صاحبھ و مکرمی امین ترمذی صاحب
سلام مسنون۔
میرے بلاگ میں آپ کی شمولیت، مجھ خاکسار کے لیے ایک اعزاز ہے ۔ آپ نے جس کمی کی جانب توجہ دلائی ہے اس میں آپ حق بجانب ہیں ۔ میں آپ دونوں سے متفق ہوں کہ یہاں اردو ہی میں ٰ گفتگوٰ ہونی چاہیے ۔
مجھے ، ٹیکنالوجی بارے کچھ زیادہ جانکاری نہیں اس لیے نھیں کہہ سکتا کھ آپ اس بلاگ پر اردو میں کیوں نہیں لکھ پا رہے ۔ بہرحال ایک مہربان سے مشورہ کرنے کے بعد جو میں سمجھ پایا ھوں، اس کے مطابق یھ کوئی مشکل کام بھی نہیں۔ آپ اپنے پی سی پر مندرجھ ذیل طریقے سے اردو لکھ سکتے ہیں۔ افسوس کھ یھ طریقہ مجھے انگریزی میں لکھنا پڑ رہا ہے ۔ امید ہے آپ معاف فرمائیں گے اور ہماری ٰ گفتگو ٰ کا سلسلہ جاری رہے گا۔
آپ کا خاکسار
نصر ملک ۔ کوپن ہیگن
اردو لکھنے کے لیے
Process to type Urdu comment for my Blog!
step 1 : Go to “Control Panel”
step 2 : Double click on “Regional and language Option”.
step 3 : Select “Keyboards and Languages” tab.
step 4 : Click on “Change keyboard” button.
step 5 : On new window, stay on “General” tab and click on “Add” button.
step 6 : Search for “Urdu (Islamic Republic of Pakistan)” which is almost at the last of the list.
step 7 : Click on “+” sign at the left of “Urdu (Islamic Republic of Pakistan)”.
step 8 : Then again click on “+” sign at the left of “Keyboard”.
step 9 : Tick the “Urdu”. And click on “OK” button at the TOP-RIGHT.
step 10 : You can see the “Urdu” on the main list now. Click on “OK” button again. And you are done.
Just select the “Urdu” language on language bar while typing comment on our website. You can find language bar at the BOTTOM-RIGHT side of the monitor.
And THAT IS ALL!
صاحب، آئیے
September 23rd, 2009صاحب آیئے، گفتگو کریں، شائد ھم کسی بات پر متفق ھو جائیں۔
میرے اس بلاگ کا مقصد ہی آپ سے گفتگو کرنا اور آپ کے خیالات سے مستفید ھونا ہے، تو کہیے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔ میں سننے یعنی یہاں پڑھنے کو تیار ہوں۔ بسم اللھ کیجیے۔
نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک ۔